لائٹ، کیمرا
اور ایکشن
کتاب والی
فلم
وامق ضیا
دوستو! کیا
حال ہیں آپ کے؟ اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ ویسے آج ہم پچھلے کچھ سال میں
کتابوں سے بنی فلموں کا تھوڑا ذکر کریں گے اور خاص کر ’’ہیری پاٹر‘‘ (Harry Potter) کی سیریز پر بات کریں گے مگر ایک خیال
ذہن میں آرہا تھا کہ ہم فلمیں کیوں دیکھتے ہیں؟چلیے Entertainmentایک بات ہوگئی مگر اس کے علاوہ یہ
بھی تو سوچیے کہ کیسے فلمیں تخیل کو اُڑان دیتی ہیں؟ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ
کتنی اصلی ہے؟ کتنی نقلی؟
نانا کے
پرانے گھر میں اوپر رکھی الماری کا دروازہ کیا کسی دوسری دنیا میں کھلتا ہے؟(The Chronicles of Narnia) کیا میں بھی کسی مصیبت میں
پھنسے جانور کو آزاد کراسکتا ہوں؟(Free Willy) یا
ممکن ہے کہ گائوں میں جہاں بھوت بنگلہ ہے وہ اصل میں کسی چور کا اڈّہ ہو؟ (Makdee)۔اس پر پہلے بھی بات ہوئی ہے کہ انسان خود بھی
کسی کہانی سے کم نہیں ہے اور اسی لیے اُسے کہانیاں پسند آتی ہیں۔
سنیما میں یہ
بات ہے کہ وہ پردے پر کسی بھی طرح کی کہانی کو قابلِ یقین بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔
اب یہاں ایک ذمہ داری ہم پر یہ آتی ہے کہ ہم کس طرح سے ان کاموں کو دیکھیں؟ ابھی
پچھلے دنوں آپ نے سنا ہوگا کہ ہندوستان میں ہی ایک ایسی فلم بنی جس کے ایک حصے نے
پسند کیا اور ایک بڑے حصے نے ناپسند کیا کیوں کہ فلم میں مذہبی طور پر غلط آنکڑے
اور اشتعال انگیز باتوں کا استعمال کیا گیا تھا۔خیر! کیوں کہ فلم کسی ریسرچ کے بغیر
اور ہلکے کرافٹ کے ساتھ بنائی گئی تھی تو وہ چلی نہیں۔
اب یہاں
آپ کو بتادیں کہ سوشل میڈیا پر بات کرنے، اخبار میں لکھنے کے علاوہ ایسے میں Broadcasting Content Complaints Council
(BCCC)جس
ہندوستانی براڈکاسٹنگ فائونڈیشن نے جون ۲۰۱۱ء میں قائم کیا ہے، یہاں پر آپ شکایت
درج کرسکتے ہیں اور انٹرنیٹ پر اس کا پورا طریقۂ کار بھی stepsمیں بتایا گیا ہے۔خیر! بات یہی ہے
کہ جو بھی سنیما کے راستے ہمارے سامنے آئے اُسے فوراً ہی قبول نہیں کرلینا چاہیے
اور اپنے طور پر دیکھنا چاہیے کہ کیا بانٹی گئی معلومات صرف منورنجن ہی ہے یا اس
کے پیچھے کوئی اور ایجنڈا ہے؟
چلیے آگے
بڑھتے ہیں اور اس بات پر آتے ہیں کہ کیسے برسوں سے سنیما میں کتابوں سے فلمیں بنتی
رہی ہیں اور کتاب پڑھنے والے ہمیشہ نہیں تو زیادہ تر منہ بناتے آئے ہیں کہ بھئی
کتاب زیادہ اچھی تھی فلم میں مزہ نہیں آیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ
فلم کی مدت مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کتاب کے سبھی کرداروں کی کڑیوں سے انصاف نہیں
کرپاتی اور یہ تو واضح ہے ہی کہ صاحب کتاب پڑھتے ہوئے آپ نے کسی اور طرح کے
آسمان ،محل اور موسم خیال کیے تھے اور جب فلم دیکھی تو اُس میں سب کو بہت چھوٹا
پایا مگر کچھ اچھی فلمیںکتابوں کی کہانی سے انصاف کرنے والی بھی بنتی ہی رہی ہیں۔
ایسی ہی ایک فلم کا ذکر آج ہم کریں گے جس کا نام ہے
’’ہیری پاٹر آف دی پرزنر آف ازکابن‘‘ (Harry Potter and the Prisoner of Azkaban)۔ممکن ہے آپ میں سے کچھ حضرات اسے دیکھ بھی
چکے ہوں مگر ہم ازکبان کے قیدی سے ملاقات کرنے سے پہلے اس کی خالق مصنفہ جے
۔کے۔رولنگ سے ملیں گے۔ ان کی کہانی کسی جادوئی کہانی سے کم نہیں ہے۔رولنگ جامہ آج
سے کئی دہائی پہلے آج کی ممتاز ترین مصنفہ نہیں تھیں۔ ان کی کتابوں اور ان پر بنی
فلموں نے ان کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگادیا مگر دوستو ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ اپنی
ذاتی زندگی میں بہت پریشان، اپنی بیٹی کے ساتھ وہ انگلینڈ کے الگ الگ چائے خانوں،
پارکوں اور سڑکوں کے کناروں پر بیٹھ بیٹھ کر لِکھا کرتی تھیں۔ جب پہلی کتاب
’’فلاسفر اِسٹون‘‘ پوری ہوئی تو وہ اسے چھپوانے الگ الگ پبلشر کے پاس گئیں اور ایک
نہیں دو نہیں پورے ۱۲
عدد پبلشرز نے انھیں انکار کردیا،مگر اس کے باوجود بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور
آخرکار جب انھیں پبلشر ملا تو ان کی کتابوں کی دھوم آہستہ آہستہ دنیا میں مچنے
لگی، مگر بچوں میں وہ بہت زیادہ مقبول تب ہوئیں جب ان کی لکھی ان کتابوں کو فلمی
ادب میں سب کے سامنے پیش کیا گیا۔
۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۷ء تک ۷ کتابوں کی یہ سیریز ایک
لڑکے ہیری پاٹر کی کہانی ہے جو لندن،ایک جادوئی اسکول، اچھائی برائی،حوصلہ اور نیکی
کے اُتار چڑھائو سے گزرتا ہے۔اپنی ظالم آنٹی کے یہاں جب ہیری چھٹیاں گزار رہا
ہوتا ہے تو کھانے کی ٹیبل پر اس کی آنٹی اس کی اور اس کے گزرے ہوئے ماں باپ کی بے
عزتی کرتی ہیں اور پھر وہ غصے میں کچھ ایسا تنتر کہہ دیتا ہے کہ آنٹی کسی گیس کے
غبارے کی طرح ہوا میں اُڑنے لگتی ہیں۔ جب وہ گھر سے نکلتا ہے تو ایک جادوئی بس
اُسے لینے آتی ہے اور ہوگوارٹس اسکول کے ایک صاحب ہیری کو تنبیہ کرتے ہوئے معاف
کردیتے ہیں کہ اس نے ہوگوارٹس کے باہر جادو استعمال کیا تھا۔
ہیری اپنے
دوست رومن اور ہرمائنی سے بھی یہاں ملتا ہے اور اُسے پتہ چلتا ہے کہ سریس بلیک نے
قید خانے سے فرار حاصل کرلی ہے ۔یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ جس شیطان لارڈ والڈے
مونٹ نے اس کے ماں باپ کو مارا تھا تو سریس بلیک اُسی کا پیادہ مانا جاتا ہے اور
اب وہ ہیری پاٹر کو مارنا چاہتا ہے۔ جب وہ اسکول پہنچتے ہیں تو اس جادوئی اسکول کے
پرنسپل ڈمبلڈور بچوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کی حفاظت کا پورا خیال رکھیں گے۔ یہاں
جو بڑا ہال دکھایا ہے وہاں روشنیوں کے لیے موجود ساری موم بنیاں ہوا میں اُڑتی ہوئی
دکھائی ہیں اور پورے اسکول میں ہی اس طرح کی کچھ نہ کچھ جادوئی چیز دکھتی رہتی ہے۔
فلم میں ایسا کپڑا جسے پہن کر آپ غائب ہوجائیں، ایسا چوہا جو انسان اور ایسا بھیڑیا
جو انسان بن جائے جیسی چیزیں بڑے قابلِ یقین انداز سے دکھائی گئی ہیں۔ یہاں ہم Special Effectsوالوں کی تعریف کیے بنا نہیں رہ
سکتے ہیں۔ یہاں ہمارا منشا آپ کو فلم کی کہانی سنانا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ
یہ ہیری پاٹر سیریز کتابوں سے بنی بہترین فلموں میں سے ایک ہے اور اگر آپ کبھی
انھیں دیکھیں تو ان کے منظر عام پر آنے کی کڑی میں ہی دیکھیے گا۔
اب یہاں
ذرا سا اُن دوسری فلموں کا ذکر بھی کرلیتے ہیں جو کتابوں سے فلموں میں تبدیل کی گئی
ہیں۔The Color
Purplel, Dune, The God Father کے
علاوہ 12 Year a Slaveکچھ
ایسی فلمیں ہیں جن کو بڑے پردے پر جب لایا گیا تو شائقین نے انھیں بہت پسند کیا
مگر فی الحال ہم آپ کو یہ کہیں گے کہ یہ فلمیں آپ ذرا بڑی کلاس میں پہنچ کر دیکھیے
گا۔ کچھ کہانیاں خاص کر مار دھاڑ، چالاکی اور انسانی رشتوں کی عجیب کشمکش مانگتی ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اُمنگی دوست ایک دم سے ایسی بھاری اور مشکل کہانیوں پر نہ
جاکر اُس طرح کی فلموں کو پہلے دیکھیں جو انھیں عمر کے حساب سے زیادہ دلچسپ اور
سبق آموز بھی لگیں۔ ویسے جب میں چھوٹا تھا تو مجھے تو وہی فلمیں دیکھنے میں زیادہ
مزہ آتا تھا جن میں ایسی چیزیں کچھ جادو، ایسے کردار اور کہانیاں دیکھوں جو کسی
حد تک ناقابل یقین ہوں پھر اسی میں دیکھتے دیکھتے سمجھ آجاتا تھا کہ جھوٹ بولنے
کا کیا نقصان ہے اور سچ کا کیا فائدہ ہے وغیرہ کیوں کہ زیادہ سبق آموزی بھی بور
کرنے لگتی ہے۔
تو کتابوں
سے بنی کچھ فلمیں جنھیں میں کہوں گا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں وہ ہیں لوئس کیرل کی Alice in wonderlandجسے ڈائرکٹر ٹِم برٹن نے
بنایا اور انھوں نے ہی Roald Dahlکی
کتاب پر میری ایک پسندیدہ فلم بنائی ’’چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری‘‘(Charlie and the Chocolate Factory)۔ بس سمجھ لیجیے جیسا نام ہے ویسی ہی فلم ہے۔
ایک چاکلیٹ کی فیکٹری جس میں چھوٹے چھوٹے بونے کام کرتے ہیں اور چاکلیٹ کے دریابہتے
ہیں اور پیڑوں پر ٹافیاں ہی ٹافیاں ہیں ۔ تو ہوتا یہ ہے کہ جس بچے کو چاکلیٹ میں
گولڈن ٹکٹ ملے گا وہ چارلی کی چاکلیٹ فیکٹری گھومے گا اور ان ہی میں سے کوئی حقدار
ہوگا بہت سے انعام کے ساتھ ساتھ اس فیکٹری کے مالک ہونے کا۔
Roald Dahl کی ہی ایک مشہور کتاب ہے Matildaجس کی فلم جب میں نے دیکھی تھی تو
بڑا مزہ آیا تھا۔ یہ ایک جادوئی بچی کی کہانی ہے جو معصوم ہے، نیک ہے مگر وقت
پڑنے پر شرارتی بھی ہے۔ فلموں کے علاوہ ٹی وی پر آنے والے کئی پروگرام بھی کتابوں
سے لیے جاتے رہے ہیں جیسے ’’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘‘ اور اگر ڈھونڈیں گے تو انٹر
نیٹ پر آپ کو مالگڑی گائوں کے بارے میں لکھا آر۔کے ۔نارائن کا Malgudi Daysملے گا۔یہ خاص مشہور رہا ہے بلکہ
آپ کے بڑوں کو تو یہ بخوبی یاد ہوگا ۔
اسی طرح
جاسوس بیو مکبیش لکشمی، چندر کانتا وغیرہ ایک وقت میں بہت پسند کیے جانے والے serialرہے ہیںاور آج بھی انھیں دیکھیں تو
اچھا لگتا ہے اور اب جاتے جاتے یہ ضرور کہیں گے کہ بہت ساری کتابیں اور فلمیں ہیں
جن کا ذکر رہ گیا ہے مگر اب آپ کا بھی تو کچھ کام رہتا ہے نا۔ اس بات سے لکھنے
والا اور پڑھنے والا دونوں ہی واقف ہیں کہ جو کام کتاب کرسکتی ہے وہ سنیما نہیں
کرسکتا اور سنیما کا کام کتاب نہیں مگر جب دونوں مل جاتے ہیں اور قاعدے کے لوگ انھیں
مل کر پیش کرتے ہیں تو کہانی میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور کچھ ایسا اچھوتا انمول
ہمارے سامنے آتا ہے جسے پالینا کسی ’’گولڈن ٹکٹ‘‘ کے پانے سے کم نہیں ہوتا۔
B-1, 2nd
Floor, Thokar No.7, Shaheen Bagh,
Abul Fazal
Enclave-II, Jamia Nagar, New Delhi-110025
Mob.:
9891522760
No comments:
Post a Comment