Tuesday, July 11, 2023

گولڈ میڈل

گولڈ میڈل

محمد رفیع انصاری

 

وہ میری ہمشیرہ یعنی حقیقی بہن تھی۔نام تو اُس کا یہ نہیں تھا لیکن سب اُسے بچپن ہی سے ’بِبِیا ‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ میں بھی اُسے ’بِبِیا‘ہی کہتا تھا۔اُس کی شکل و صورت مجھ سے ملتی جلتی تھی۔ اُس کا رنگ و روپ قریب قریب میرے ہی جیسا تھا یعنی خالص ہندوستانی۔وہ مجھ سے عمر میں تین سال بڑی تھی۔میں چوتھی جماعت میں تھا تو وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔پڑھنے کا اُسے بڑا شوق تھا۔ مشہور رسالے ہر دور میں اس کے تکیے کے نیچے مل جاتے تھے۔انقلاب اس کا پسندیدہ اخبار تھا۔ وہ اس اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھتی اور وقت آنے پر اُس کے مضامین کا حوالہ بھی دیا کرتی تھی۔

یوں تو اس کے متعلق کہنے کی بہت سی باتیں ہیں، لیکن میں صرف چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کروں گا۔ ایک زمانے میں خواتین کا رسالہ  ’بانو‘ اس کی پہلی پسند تھا۔وہ اس رسالے کو ہر ماہ پابندی سے خریدتی تھی۔کسی ماہ کا رسالہ ملنے سے رہ جاتا تو مجھ سے منگواتی۔انہی دنوں سلامت علی مہدی نے رسالہ بانو میں ڈراؤنی کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ان کہانیوں نے برصغیر کی باذوق عورتوں میں ایسا خوف و ہراس پھیلایا کہ بعض خواتین تو آج بھی ان کہانیوں کے ذکر پر خوف زدہ ہوجاتی ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کہانی جو بہت مشہور ہوئی تھی اس کا نام  ’ایک بِلّی ‘ تھا۔وہ ایک کالی بِلّی تھی۔ ’ایک بلّی ‘ میںاسے ڈرکی علامت بناکر پیش کیا گیا تھا۔ اس کہانی کے شائع ہوتے ہی پورے معاشرے میں کالی بلّیوں کے خلاف ایک مہم سی چھڑ گئی۔جو گھر ان بلّیوں کے رین بسیرے تھے وہاں اب رت جگا ہو نے لگا۔بِبِیا جو پہلے بِلّی دیکھ کر مسکراتی تھی اب فکرمند رہنے لگی، لیکن اس نے ضبط سے کام لیا اور کہانی کے خوف سے رسالہ پڑھنا بند نہ کیا بلکہ لوگوں کو تسلّی اور تشفی دیتی رہی۔

اس کے بستے میں بیاضوں اور نصابی کتابوں کے بیچ میں رسالے بھی پائے جاتے تھے۔خاص طور سے وہ اردو رسالوں کی دیوانی تھی۔ کہتے ہیں کہ اسکول میں خالی پریڈ کے دوران وہ پیچھے والی ڈیسک پر بیٹھ کراردو رسالے کا مطالعہ کیا کرتی تھی۔شاید اسی لئے وہ کلاس میں ’پڑھاکو‘ مشہور ہو گئی تھی۔ یہی نہیں وہ اپنے رسالے اپنی پسندیدہ ٹیچروں کو بھی پڑھنے کے لئے شوق سے دے کر خوش ہوتی تھی۔

وہ مجھے گھر کے بڑوں کی طرح’ للّو‘ کہہ کر مخاطب کرتی۔مجھ سے کوئی شکایت ہو جاتی تو’للوا‘ کہتی اور اگر بہت ناراض ہوتی تو مجھے ’ للّو ٹلّو ‘ کہہ کر پکارتی۔ میں اس کی اس نام بگاڑنے کی حرکت کا بُرا نہیں مانتا تھا۔بلکہ اس کے للّوٹلّو کہنے کا خوب لطف اُٹھاتا۔

بِبِیابعض معاملوں میں بڑی عجیب تھی۔چَھپی ہوئی چیزیں شوق سے پڑھتی تھی لیکن خوداُسے چُھپنا پسند تھا۔اس کا سلوک مظلوم بڑوں اور معصوم بچوں کے ساتھ ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔اس کے کمرے میں بچوں کے آنے جانے پر کبھی کوئی پابندی نہیں رہی۔وہ کہتی بھی کہ بڑے سمجھ میں نہیں آتے ، مگربچّے دل میں اُتر جاتے ہیں اس لئے کہ وہ من کے سچّے ہوتے ہیں۔وہ ساحرؔ لدھیانوی کے بچوں کے لئے لکھے گئے اس نغمہ کی قائل تھی جس میں بچوں کو من کا سچا کہا گیا ہے ۔وہ اکثر گنگناتی:

 خود روٹھیں ،خودمن جائیں،پھر ہمجولی بن جائیں

جھگڑا جس کے ساتھ کریں، اگلے ہی پل پھر بات کریں

ان کو کسی سے بیر نہیں، ان کے لئے کوئی غیر نہیں۔۔۔

بِبِیاکو ہمیشہ سے ایک وہم تھا کہ وہ بیمار ہے۔ اپنے اس وہم کو دور کرنے کے لیے وہ روزانہ اسپتال جاتی تھی۔ ڈاکٹر اس کی نفسیات سے واقف ہونے کے بعد اس کا دل رکھنے کے لئے اسے کوئی نہ کوئی دوا دے دیا کرتے تھے ۔ وہ روزانہ دوا کی پُڑیا لاتی اور اسے اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر مطمئن ہو جاتی۔ ڈھونڈنے والوں کواس کے سرہانے تازہ رسالے  اور اخبار کے تراشوں کے علاوہ دواکی پُڑیا بھی بغیر کوشش کے مل جاتی۔   اس کی دوا اور بیماری کے بارے میں کوئی پوچھتا تو اس کا جواب بڑا حکیمانہ ہوتا ، کہتی ’’اچھے مریض کی پہچان یہ ہے کہ وہ پابندی سے دوا کھاتا نہیں مگر پابندی سے دوا لاتا ہے۔مریض کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پابندی سے دوا لانے سے بھی آرام ملتا ہے۔ ‘‘ببیا اخیر عمر تک اپنی اس رائے پر قائم رہی اور گھر والوں کی رائے سے اسے کبھی اتفاق نہ ہوسکا۔

بچپن کا ایک واقعہ آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔یہ آج سے تقریباً ساٹھ (۶۰)برس قبل کی بات ہے۔اس وقت ہم دونوں پرائمری اسکول میں تھے۔دونوں کے اسکول قریب قریب ضرور تھے مگر گھر سے اسکول کا فاصلہ لگ بھگ آدھا کلو میٹر کاتھا۔اس کے اسکول میں ایک دن لڑکیوں کا پکنک پر جانا طے ہوا۔ اس کی سہیلیوں نے کسی طرح اسے بھی پکنک کے لئے راضی کرلیا۔یک روزہ پکنک بمبئی جارہی تھی۔سویرے منہ اندھیرے بس کو اسکول سے روانہ ہونا تھا۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ’للّو! ببیا کو سویرے اسکول تک چھوڑ آنا، اسے بڑی سہولت ہوجائے گی۔ ‘ میں نے تھوڑے سے تردّد کے بعد ’ہاں‘ کردی۔پکنک والے دن ہم دونوں یعنی میں اور ببیا سویرے سویرے گھر سے نکلے۔میری آنکھوں میں نیند بھری تھی لیکن ببیا چاق و چوبند تھی۔میں بوجھل قدموں کے ساتھ چل رہا تھا اور وہ خوش خوش آگے آگے جا رہی تھی۔اس طرح راستہ طے ہو گیا۔ ہم لوگ اسکول کے قریب پہنچ گئے ۔۔۔ببیا رُکی اور مجھ سے بولی:’ٹھیک ہے اب تُم جاسکتے ہو‘۔ میں جانے کے لئے جھٹ سے مُڑا۔’لیکن سنو۔‘ اس نے مجھے آواز دی اور بولی:’ للّو! ذرا اپنا ہاتھ دکھاؤ‘۔میں نے غیر ارادی طور پر ہاتھ بڑھا دیا۔اس نے میری ہتھیلی پر ایک سکّہ رکھ دیا اور بولی: ’شکریہ ‘۔میں نے دیکھا میری ہتھیلی پر ایک اٹھنّی چمک رہی تھی۔ ببیا کو منزل تک پہنچانے کا یہ انعام دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیں۔۔۔

گزشتہ دنوں ببیا کا انتقال ہوگیا۔ اسے آخری منزل پر پہنچاتے وقت مجھے بہت کچھ یاد آرہا تھا۔اس کی دی ہوئی اٹھنّی بھی یاد آرہی تھی۔زندگی میں مجھے بہت سے انعام ملے،مگر ببیا کی دی ہوئی وہ اٹھنّی ( سچ کہوں تو) میرے لئے ’گولڈ میڈل ‘ کا درجہ رکھتی ہے۔خدا اسے غریقِ رحمت کرے، آمین۔

 

Al-Madani, 734, Bhosar Mohalla, Bhiwandi,

Dist. Thane-421302 (Maharashtra)

 

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...