Monday, July 10, 2023

ہیئتی تنقید

 ہیئتی تنقید

پروفیسر محمدحسن

ہیئت کی اصطلاح ادبی تنقید میں دومختلف معنوںمیں استعمال ہوتی آئی ہے، ایک طرف تو اسے ادبی شہ پاروں کی ظاہری شکل وصورت یا صنف کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً غزل کے اشعار کا دو مصرعوں پر مشتمل ہونا یا ان میں قافیہ وردیف کی موجودگی، دوسری طرف ہیئت کے لفظ کو وسیع تر مفہوم میں کسی فن پارے کی داخلی ترتیب اوراس کے مختلف اجزا کے درمیان توازن وتناسب، ربط وآہنگ کو بھی ہیئت قرار دیا گیا ہے۔

آسکر وائلڈ نے غالباً اسی نقطۂ نظر سے لکھا تھا۔ اس سلسلہ میں وہ لکھتا ہے:

Form is a myth, it is a secret of life start with the worship of form and there is no secret of Art that will not be revealed to you.

اس اعتبار سے ہیئت کا مفہوم محض اصناف کی ظاہری شکل تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ وسیع تر معنویت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کا وزن، بحر، الفاظ کا انتخاب ہی نہیں بلکہ اس کی ظاہری شکل وصورت کے تمام رشتے اورروابط ہیئت کے ضمن میں آجاتے ہیں۔ ایک طرف ہیئت کے وہ باطنی رشتے ہیں جو خیال اور تصور سے قائم ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ رشتے ہیں جو ظاہری شکل کے مختلف حصوں کو آپس میں مربوط کرتے ہیں۔ ان رشتوں میں ایک طرف تو الفاظ کے لسانیاتی پہلواوران کی معنویت اور تصورات کی ترجمانی کی طاقت پر گفتگو ہوتی ہے اور دوسری طرف ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے درمیان باہمی رشتوں کی بازیافت کا عمل سامنے آتا ہے۔ یہاں شاعری محض تصورات کی ترسیل نہیں بلکہ موسیقی اور مصوری سے بہت کچھ ملتی جلتی شکل اختیار کرلیتی ہے اورہیئت کا بنیادی مسئلہ تکنیک اور فن کارانہ ہنرمندی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

دوسرے مفہوم کو پیش نظررکھا جائے تواس کی جڑیں جمالیات اور تنقید فن میں دور دور تک پھیلی ہوئی نظرآتی ہیں۔ اتنی دور تک کہ اس کا رشتہ جمالیات کے اس بنیادی سوال سے جوڑا جاسکتا ہے کہ آخرکوئی فن پارہ ہمیں کیوںکر جمالیاتی تسکین اور انبساط بخشتا ہے۔ اس کا جواب ایک وہ تھا جو قدیم ترین فنی تنقید نے ہومرؔ کے الفاظ میں اس طرح دیا تھا کہ انبساط دراصل جوں کی توں نقل سے حاصل ہوتا ہے اوریہ شاید اس لیے کہ نقل انسانی جبلت ہے جسے افلاطون نے اپنے مشہور نظریے ’’نقل کی نقل‘‘ سے لافانی بنا دیا، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا بھی درست ہوگا کہ فطرت خود ایک ماہر فنکار ہے اوراس کے فن پاروں میں جوتوازن، تناسب اور آہنگ پایا جاتا ہے جب فن کار اس عمومی توازن وتناسب اور آہنگ کو گرفت میں لے آتا ہے تبھی اس کا فن پارہ جمالیاتی کیفیت حاصل کرپاتا ہے۔ آخر حسن کا جوتصور افلاطون نے اپنی خیالی ریاست سے لے کر اپنے دیگر سبھی تصورات میں ڈھونڈا ہے وہ یہی توازن وتناسب اورآہنگ توہے۔

کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ حسن کا کوئی ایک مخصوص سانچہ ہے یا کوئی ایک توازن اور آہنگ ہے جس کی بنیاد پر جمالیاتی انبساط وکیف پیدا کیا جاسکتا ہے۔ افلاطون کی تعلیمات میں اس طرف اشارے توملتے ہیں جنہیں بعد کے نوافلاطونیوں نے ربط اور وسعت دے کر نئی فکری حیثیت دے دی۔ مثلاً افلاطون اقلیدسی شکلوں کی خوش آہنگی کا قائل تھا اوراسی قسم کا آہنگ فطرت ہی نہیں انسانی شخصیت اور اس کی جسمانی ترتیب میں تلاش کرتا ہے۔ پانچ خلطوںکا طبی نقطۂ نظر یہیں سے ابھرا اورآب وآتش، خاک و باد کے عناصراربعہ کے تصورات یہیں سے شروع ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون ہی نے اپنی درسگاہ کے دروازے پر یہ تختی لگائی تھی کہ جواقلیدس سے واقف نہ ہو وہ اندر داخل نہ ہو۔ یہاں تک کہا گیا کہ افلاطون کے نزدیک ہستیٔ خداوند بھی اقلیدسی شکل ہی تھی۔

اس کلیے کو دوجہتوں میں پھیلایا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ فن دراصل کائنات کی مختلف النوع تخلیقات اور ان کے متنوع مظاہر میں تعمیم پیدا کرنے کی کوشش ہے یا انسانوں کی مختلف النوع شکلوں اور ان کی متنوع ذہنی وجذباتی کیفیات کے درمیان ایک ایسی تعمیم کی کوشش ہے جسے انسان کی فطری یا متوازن ہیئت یا فارم کہا جاسکتا ہے۔ تخصیص وتعمیم کی اسی بحث کو ارسطو نے آگے بڑھاکر تاریخ یا شاعری یا (یا فن) میں فرق پیدا کیا کہ تاریخ میں مخصوص افراد اورصورت حالات کا ذکر ہوتا ہے اور ممکنات اور اغلبیات کی بحث اٹھاکر فن کو تاریخ سے افضل ٹھہرایا ہے کہ وہ ممکنات سے بحث کرتا ہے۔ (یعنی انسانی اعمال و کردار کی اوسط یا ان کی تعمیم تک پہنچتا ہے)

(۲) دوسری نہج پر یہ بحث فن پارے کی اندرونی ترتیب اور توازن تک رہنمائی کرتی ہے اور وسیع تر معنوں میں محض انداز بیان کا مسئلہ بن جاتی ہے، اسی لحاظ سے بعد کو ہیئتی تنقیدنے ادب کو محض فارم کا سوال قرار دے کر صرف متن تک تمام تنقیدی مطالعے کومحدود کردیا۔ غالباً اسی نقطۂ نظر سے آسکروائلڈ نے کہاتھا کہ آرٹ محض فارم ہے۔

(۲)

ہیئت پرست نقادوں کا دعویٰ ہے کہ قدیم تنقید کے پانچوں اہم مراکز میں ہیئت پر ہی زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے، ان میں یونان، روم، چین، بھارت اورمغربی ایشیا کوشامل کیا جاتا ہے ۔ گویہ دعویٰ سو فیصد درست نہیں لیکن اس میں جزوی صداقت ضرور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی بھی سماجی نظام استحکام پاتا ہے اور اس کی اقدار کو قبولیت اور استناد حاصل ہوجاتا ہے ہیئت پرستی کا میلان بھی غلبہ حاصل کرتا ہے۔ ہر سماج اپنے ضابطوں کوقانون فطرت سمجھ لیتا ہے اوراپنے بنائے ہوئے جمالیاتی اور فنی سانچوںکو حتمی اور قطعی سمجھ کر ان کے عالم گیر اطلاق کا جواز پیدا کرنے لگتا ہے، لیکن جب اسی سماج کے اندر مسلمہ اقدارپر سوالیہ نشان قائم کیا جانے لگتا ہے اور اقدار کی کشمکش شروع ہوتی ہے تواکثر توجہ ہیئت یا تنقید سے ہٹ کر نفس مضمون، نئی جہات اور فکروخیال کی طرف مبذول ہوجاتی ہے۔

یونان میں(۱)تنقید کی ابتدا ہیئت پرستی سے نہیں ہوئی بلکہ ہومرؔ کا وہ پہلا بیان جس میں سچے فن کی پہچان یہ بتائی گئی تھی کہ وہ واقعات کوسچ سچ بیان کرسکے یا مطابق اصل عکاسی یا تصویر کشی کرسکے۔ ہیئت کے بجائے وہ حقیقت پسندی پر زیادہ زوردیتا ہے۔ افلاطون نے بھی نقل کی نقل کے تصور کے ذریعے اسی پہلو کو زیادہ اجاگرکیا مگر افلاطون کے یہاں ہیئت پرستی کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ افلاطون نے تمام تر بحث سماج پر آرٹ کے اثرات سے کی ہے۔ کہیں بھی آرٹ پر سماج کے اثرات سے نہیں کی جس کی بنا پر اسے سماجیاتی تنقید کے علمبرداروں میں شمار نہیں کیا جاسکتا پھر یہ بھی صحیح ہے کہ افلاطون چونکہ فطرت کے ایک مخصوص نظام کا قائل ہے لہٰذا وہ فن کے بھی اسی مخصوص نظام پر زوردیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ افلاطون کے پیرو جب فنی تنقید کی طرف متوجہ ہوئے توانہوںنے ہیئت پرستی ہی کواختیارکیا۔

وم ساٹ اورکلینتھ بروکس نے افلاطون کے حواس خمسہ کے تصور وتصویری آرٹ میں اس کے بیانات کو ہیئت پرستی کے ثبوت میں پیش کیا ہے:

I do not mean by beauty of Form such beauty as that of animal or picture... but straight lines and circles and the plane or solid figures, which are formed out of them by turning lathes and rulers and measures of angles. For these I affirm to be not only relatively beautiful, like other things, but they are eternally and absolutely beautiful. P.17

ارسطو کے بارے میں یہ بات واضح ہے، ارسطو کے نظریۂ نقل کے باوجود بوطیقا میں سارا زور بیان شاعری کے مختلف اسالیب کی درجہ بندی اور ان کی ہیئتی ضابطہ بندی پر صرف ہوا ہے۔ ارسطو اصناف کے ظاہری دروبست سے بحث کرتا ہے اوران کو باطنی معنویت سے بھی زیادہ اہمیت دیتا نظرآتا ہے۔

ارسطو کے شارحین نے وحدث ثلاثہ کا نظریہ اس کے سرمنڈھ کر اس کی ہیئت پرستی میں اوراضافہ کیا۔ ارسطو ڈرامے کوایک گردش آفتاب پر محیط دیکھنا چاہتا ہے جوشاید اس دور کا تقاضہ تھا اور اسی کے مطابق ارسطو نے یہ ظاہری پابندی ضروری سمجھی مگر وحدت تاثر کے علاوہ زمان ومکان کی جن وحدتوں کوارسطو سے منسوب کردیا گیا ہے ان کی ذمہ داری درحقیقت ارسطو پر نہیں وہ ان کا ہرگز قائل نہیں ہے کہ ڈرامے میں جومقامات دکھائے جائیں وہ اسٹیج کی جگہ سے وسیع اوراس سے باہر نہ ہوں یا جو واقعات ڈرامے میں پیش کئے جارہے ہیں وہ عملی زندگی میں اس وقت سے زیادہ میں پیش نہ آئے ہوں جتنے وقت میں وہ اسٹیج پر پیش کیے جارہے ہیں۔

اس مرحلے پر ایک طرف ارسطو (اورکسی حدتک افلاطون)کے نظریۂ نقل پر غورکرنا ضروری ہے جس کے مطابق یہ دنیا بکھرے ہوئے ذرات کا ایک تودہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی مرتب اورمنضبط تخلیق ہے جو مقررہ ضابطوں اور قاعدوں کے مطابق چلتی ہے۔ کائنات ایک بامعنیٰ عمل ہے اور اس کے اجزا ایک دوسرے سے منضبط ہیں اور آرٹ کا مقصد زندگی کی ایسی بامعنٰی شکل کی تصویرکشی کرنا ہے یا دوسرے لفظوں میں آرٹ فطرت کے پرمعنویت عناصر کی کردارشناسی اور عکاسی ہے۔ W.J.Hates کے الفاظ میں:

The foundation of the classical tradition is its confidence in a rationally ordered and hamonious universe, working according to fixed laws, principles and forms. Art. as an imitation of what is essential in nature and is, therefore concerned with persisting objective forms. (Criticism: The Major Texts) (Intro.4)

پھر المیے کی تعریف میں بھی ارسطو جن پر زوردیتا ہے وہ تکمیل کا تصورمرصع زبان اورباعظمت کرداروںپرمشتمل ہے۔ اس کے نزدیک ہر صنف میں کامیابی اس کے ظاہری تانے بانے یا فنکاری کاریگری پر منحصرمعلوم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے بوطیقا نے عالمی تنقید پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔

ارسطو کے نزدیک ایک تخلیقی فن پارہ ایک مربوط وحدت ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی میں ایک خاص آہنگ اور باہمی توازن کا ہونا لازمی ہے۔ فن بلاغت پر اپنے رسالے میں ارسطو کی توجہ ہیئت پر اورزیادہ مرکوز ہوئی۔ یونانی تنقید کا اثرجہاں جہاں پھیلا وہاں ارسطو کی بوطیقا کی بنا پر ہیئت پرستی کا بھی ایک خاص میلان پیدا ہوا۔

تنقید محض فنی کاریگری بن کر رہ گئی اورفصاحت وبلاغت کے ایسے معیار تلاش کیے جانے لگے جن پر فن پاروں کوجانچااورپرکھا جاسکے۔ روم میں جب شہری جمہوریتوں کا رواج ہوا اور امن اورجنگ جیسے اہم مسائل روم کی سینٹ میں خطابت کے جوش کے درمیان رائے عامہ سے طے ہونے لگے تو فن کی تعریف اور وسیع ہوئی اور فصاحت کے اصول زیادہ تر صناعی اور کاریگری کی سطح پر طے کیے جانے لگے۔ روم میں یہ لے اتنی بڑھی کہ ہوریس اور کیٹلس جیسے نقادوں نے کلاسیکی ضوابط ہی کی پیروی کو وسیلۂ نجات جانا۔ ہوریس نے تویہ مشورہ دیا کہ :

’’یونانی شاعروں کے کلام کا غائر مطالعہ کرو۔ رات کوان کے خواب دیکھواور دن کوان پر غور کرو۔‘‘

اس زمانے میں جب علم ایک وحدت سمجھا جارہا تھا اورعام طورپر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جو کچھ جاننے کو تھا وہ جانا جاچکا یا کم سے کم اس کا اہم حصہ جانا جاچکا تو تہذیب کے دوسرے مراکز میں بھی ضابطوں اورسانچوں کوحتمی شکل دینے کی کوشش کی جارہی تھی۔

ہندوستان میں بھرت کا ناٹیہ شاستر ڈرامے پرہیئت ہی کے نقطۂ نظر سے غورکرتا ہے اور اس کی ہیئت اورتشکیل کے ایک ایک جز کی تفصیل، کاریگری اورصناعی کے لحاظ سے بیان کرتا ہے اور ناٹیہ شاستری میں بھرت نے اس کے نظریے کی داغ بیل ڈالی ہے۔ اس سے مراد وہ جذبات ہیں جو مصنف قاری پر طاری کرنا چاہتا ہے یا جنہیں فن پارے کے مرکزی موڈ سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔ اس کی اصطلاح یوں تو نہایت پیچیدہ ہے اوراس پر ماہرین فن نے نہایت تفصیل سے بحث کی ہے لیکن عام قاری کے لیے اتنا جان لینا مفید ہوگا ارسطو نے ڈرامے میں جس وحدت تاثر کوضروری قرار دیا تھا بھرت اس سے اور آگے جاکر اس تاثر کی درجہ بندی تک پہنچتا ہے اوراس طرح نورس کا نظریہ وجودمیں آتاہے۔

شرنگار      (رومانی)    ویر         (رزمیہ)

ہاسیہ        (مزاحیہ)     بھیانک      (خوفناک)

کرون       (دردمندانہ) بھی بھتس   (نفرت انگیز)

رودر        (دہشت خیز) ادبھت      (حیرت خیز)

شانت       (سکون بخش)

سنسکرت شعریات کے دوراول میں دنڈیؔ اور بھامہاؔ نے ہیئت ہی پر توجہ صرف کی اورنثر، نظم اور مخلوط تین قسم کی شاعری کا تصور پیش کیا اوراس کے ضابطے اوراجزائے ترکیبی مرتب کیے۔ مہاکاویہ اعلیٰ ترین صنف شاعری قرار دی گئی اور اس کے لیے منافع، خواہش یا نجات کے موضوعات مخصوص کیے گئے۔ ہیرو کے لیے ہوشیاری اور شرافت لازمی ٹھہری۔ شہر، سمندر، پہاڑ، موسم طلوع آفتاب اورطلوع ماہتاب کے مناظر، تالاب یا باغ میں عاشق ومعشوق کی چھیڑچھاڑ، شراب نوشی اوراظہارِمحبت کے مناظر، ضیافتیں، ہجر وفراق اورشادی، جنگ وجدل یا جشن اور دربار کی تصویرکشی بھی اجزائے ترکیبی میں شامل ہوئی۔ نثری شاعری کودنڈی نے اکھیاے کا اورکتھا کی قسموں میں بانٹ دیا ہے اور شاعری کے لیے سنسکرت، پراکرت، اپ بھرنش کو یا ان سے ملواں زبان ہی کوجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلوب کے سلسلے میں بھی ویدربھ اور گودھ کی تقسیم روا رکھی گئی اور اول الذکر کے لیے ارتھ، ویکتی اور پرساد(ندرت ادا اور فصاحت) شلیش (ایہام وتجنیس) مادھریہ (شیرینی) سکمارتا (شائستگی) سمتا (جوش آہنگی) اوجس (زور کلام) ادارتو(ارتقاع) کانتی (حسن ادا) اور سمادھی (شعریت) ضروری قرار دی گئیں جب کہ گودھ میں صوتی آہنگ، تجنیس اصوات و الفاظ کا خاص ترتیب کے ساتھ امتزاج مبالغہ اور صرف ونحو صنائع و بدائع کا فن کارانہ استعمال لازمی ٹھہرا۔ وامنؔ نے اس نظام کو اور بھی زیادہ مربوط اور باضابطہ بنایا اور شعری اسلوب کو ویدربھ گودھیہ اورپانچال میں تقسیم کردیا۔

ویدربھ کے لیے :ہمہ گیر شعری محاسن ضروری ٹھہرے اور گودھیہ کے لیے: زور کلام اورحسن ادا اورپانچال کے لیے:شیرینی اور شائستگی لازمی ہوئی۔

ممٹ نے ایک قدم اورآگے جاکران تمام خوبیوں کو آواز اورآہنگ کے ذریعے پیدا کرنے پرزوردیا اور دھونی یا آہنگ ہی کوشعری تنقید کا مرکزی تصور قرار دے دیا۔ وامنؔ نے شیرینی، زوربیان اورصفا کو معیارقراردیا تھا۔ ممٹ نے شیرینی کوانفی آوازوں یا چھوٹے مصمتوں پرمنحصر بتایا اور زورکلام کو رگڑدارآوازوں یاس ش جیسی آوازوں پر اور صفائے کلام اسی وقت ممکن ہے جب آواز اور آہنگ ہی سے شعر کا مطلب واضح ہوتا ہو۔ یہی نہیں ممٹ نے ضابطہ بندی کواس منزل تک پہنچا دیا کہ شعر کے ۱۴۰۰ معایب کی فہرست بناڈالی۔

آنندوردھن نے ممٹ کے نظریہ آہنگ (دھونی) کورسؔ کاوسیلہ قرار دے کر دونوں کو ملا دیا، آہنگ کا مقصد رسؔ پیدا کرنا ہے یعنی پڑھنے یا سننے والے پر ایک مخصوص جذبہ طاری ہوسکتا ہے جب پڑھنے یا سننے والے کے تجربے میں ایسے تصورات، تاثرات یا اشیا آچکی ہوںاور یہ پچھلے جنم کے تجربات پرموقوف یا توفیق خداوندی پر منحصر ہے۔(۲)

ریوکانے رس اور دھونی کے ساتھ تیسری اصطلاح النکار یا صنعت گری کواہمیت دی اورجگن ناتھ نے اس معیار کی سختی سے پابندی کی۔ ان کے نزدیک شاعری کا زیور صنعت گری ہے کہ یہی شاعری کو دوسرے وسائل اظہار سے ممتاز کرتا ہے۔ ہیم چندر نے اس لے کواور بھی بڑھایا اور آخرکار سنسکرت شعریات کا علم نقادوں اور مفکروں کے بجائے صنعت گروں اورعلم عروض وبیان کے کاریگروں کے ہاتھ پڑ گیا اور شاعری کی پہچان اپما (تشبیہ) روپکا (استعارہ) دیپکا (تمثال) اور یمک (آہنگ) کو قرار دیا جانے لگا، لیکن اس مختصر سے جائزہ سے بھی یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ سنسکرت شعریات کے ابتدائی دورمیں معنی سے زیادہ زور ہیئت پر صرف کیا گیا ہے(۳)اور ایسے سانچے وضع کرنے یا طے کرنے کی کوشش کی گئی جن کے برتنے سے لازمی طورپر جمالیاتی حظ پیدا ہوسکے۔

چین ہمارے تہذیبی مراکز میں شاید قدیم ترین کہا جاسکتا ہے۔ چینی تنقید (۴) کے ابتدائی دورمیں چنگ ینگ کے درمیان باہمی توازن کو اہمیت دی گئی۔ چینی شاعری میں لہجے اورآہنگ پر زوردیا گیا اورشاعری کو چار اصناف میں تقسیم کرکے ان کے سانچے اورضابطے بنا دیے گئے۔ شہ، فو، زو اور چو۔ اس کے علاوہ ہلکے پھلکے موضوعات روزمرہ کے تجربات اور لطیف احساسات نے ان نظموں میں جگہ پائی۔ یہاں معنی سے زیادہ آہنگ اہم ہے اورخیالات سے زیادہ اہمیت شعری ہیئت کی ہے جسے کنفوشیس کے فلسفے نے چنگ ینگ کی فکری بنیادعطا کردی۔ ایذرا پائونڈ اور آئی اے رچرڈرز دونوںنے اسی فکری بنیاد پر اپنے تنقیدی افکار کے محل تعمیر کیے۔ چنگ ینگ (۵) کا صحیح ترجمہ تو ممکن نہیں مگر یہ دراصل استقامت اور تبدیلی کے درمیان ایک لطیف توازن قائم کرنے کی تلقین ہے جس کا عکس چینی نظم کے مختلف آہنگ والے ٹکڑوں کے باہمی توازن میں بھی جھلکتا ہے۔ چینی شاعری اسی تبدیلی و استقامت کے درمیان ایک لطیف توازن ہے اوراس توازن کے لیے ہیئت دوسری تمام چیزوں سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جاپان کی ہائیکو شاعری کا ذکر بھی اس ضمن میں کیا جاسکتا ہے جو ۳۲ٹکڑوںمیں پورا مضمون ادا کرنے پر زور دیتی ہے۔ یہی ہیئت پرستی نوہ کے ڈرامے میں موجودہے۔

تہذیب کا تیسرا اہم مرکز مغربی ایشیارہا ہے جہاں عبرانی، عربی اور فارسی شاعری کاعروج ہوا۔ عبرانی شاعری وزن سے آزاد ہے اورایک خیال پارے کودوسرے خیال پارے کے مقابلے میں رکھ کر توازن پیدا کرتی ہے۔

عبرانی شاعری میں بھی توجہ ایک خیال پارے کو دوسرے خیال پارے کو مقابل رکھنے پر ہے گو خیال سے بھی توجہ ہٹی نہیں ہے لیکن توازن اورہیئت کا تصور زیادہ اہم قرار دیا گیا ہے۔

عربی اور فارسی شاعری میں بھی ہیئت پر یہ زور برابرموجود رہا ہے۔ حدیقۂ ارم کا اقتباس دیا جاچکاہے جس میں کائنات کے آہنگ کے تصورپر شعر کی ہیئت کو قیاس کیا گیا ہے۔

’’دقت نظر سے یہ امر پایۂ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ جس طرح کائنات میں بعض چیزوں کو دوسری چیزوں کے ساتھ ایک خاص قسم کا ربط اور تناسب ہے اورکوئی چیز اس ربط سے خالی اورفارغ نہیں ہے اسی طرح الفاظ موضوعہ کو اپنے معانی موضوع لہٗ (جن کے مقابلے میں وہ الفاظ وضع ہیں) کے ساتھ ایک خاص ربط اور مناسبت ہے۔ عالم صغیر یعنی انسان کے اعضا میں یہ ربط ظاہراً پایا جاتا ہے۔ پس عالم کبیر میں بھی یہ ربط اور تناسب موجود ہے جس کی کیفیت کا سمجھنا محض موہبت الٰہی پر موقوف ہے۔‘‘ (۶)

عربی میں شاعری کی جو تعریف کی گئی ہے ان میں بھی ہیئت کو اولیت حاصل رہی۔ عرب نقادوں ہی میں سے کسی ایک کے قول کا فارسی ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

’’کلامے است موزوں ومقفیٰ کہ بقصد متکلم ازو صد ور یابد۔‘‘

یعنی شعر وہ موزوںاور قافیہ دار کلام ہے جوکہنے والے کے ارادے سے ظہورمیں آتا ہے۔ یہاں قصد پر خاص طورپر زوردیا گیا ہے پھر شاعری کوچار اصناف قصیدہ، غزل، رباعی اور مثنوی میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ سبھی قدیم کتابوںمیں فصاحت کے اصول و ضوابط وضع کرنے اوران کے مطابق اشعار کی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش موجود ہے اور اسی لیے علم بیان، علم بدیع اور علم عروض کا ارتقا ہوا۔

خلیل بن احمدنے عروض اور بحروںکے جوسانچے وضع کیے ان کی پابندی مدتوںلازمی ٹھہری۔ ان کے نہ صرف موضوعات طے تھے بلکہ ان کے اجزائے ترکیبی، ان کے مصرعوں کا دروبست، ان کے قوافی کا التزام اور ارکان کی ترتیب پر ہی زیادہ زوردیا جاتا تھا اورانہی باتوں کوتنقید میں زیربحث لایا جاتا تھا۔ اس کے بعد کی تنقید میں بھی عروضی سانچوں، الفاظ کے دروبست اور ان کی ترتیب اور مناسب ترین لفظ کے انتخاب ہی پر زیادہ زوردیا جاتا رہا ہے۔ عربی تنقید کا یہی مزاج رہا جس کا ثبوت المعجم، المطول، اساس الاقتباس اور اس قسم کی متعدد تصانیف میں ملتا ہے۔ قدیم عربی ادب کا اعلیٰ ترین فنی شہ پارہ قرآن مجیدکوقراردیا گیا ہے اوراسی کوفصاحت کا معیار مانا گیا اور ادب کے سبھی تنقیدی معیار قرآن مجید کی ادبی اور فنی خصوصیات پر مبنی رہے۔

فارسی میں عرب اثرات نے ہیئت پرستی کے رنگ کواورزیادہ مستحکم کردیا ۔ فارسی شاعروںاور نقادوں نے عربوں سے عروض وآہنگ کے سانچے ہی نہیں لیے بلکہ اصناف کی تقسیم بھی لے لی اوراسی کے مطابق مختلف اصناف کی درجہ بندی اور ان اصناف کے اجزائے ترکیبی کا تعین(۷) بھی کردیا۔ آگے چل کر یہی روش قدیم فارسی اور اردو تنقید نے بھی اختیارکی۔

(۳)

ہیئت پرستی کے میدان میں دور قدیم کے بعددواہم موڑ آئے۔ ایک فن برائے فن کی تحریک کے دوران اور دوسرا ’’نئی تنقید‘‘ کی تحریک کے زیراثر، ان دونوں تحریکوں میں ہیئت کا تصور اور ہیئت پرستی کے فکری مضمرات میں بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

فن برائے فن کی تحریک جمالیاتی احساس کو دوسرے تمام تقاضوں سے آزاد کرنے کی کوشش کے طورپر ابھری تھی مگر اس تحریک کے آخری دور میں فارم یا ہیئت کے ایک پراسرار اورنیم متصوفانہ تصور کو غلبہ حاصل ہونے لگا۔ شروع شروع میں ہیئت کو صناعی اور کاریگری کے مفہوم ہی میں استعمال کیا گیا۔ موزونیت اورآہنگ کو بھی ان خارجی معیاروں میں شامل کرلیا گیا اور شاعری کے مفہوم یا فکری تانے بانے کے بجائے انہی نکات کواہمیت دی جانے لگی۔

ولیم کے وم ساٹ اورکلینتھ بروکس نے اس دورپر سے بحث کرتے ہوئے بجاطورپر لکھا ہے کہ:

الف: فن برائے فن کی تحریک نے جمالیات کو ہر قسم کی افادیت کوالگ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے خیال کے مطابق حسین چیزیں وہی ہوتی ہیں جوہم سے غیرمتعلق ہوتی ہیں اور ان میں ہماری دلچسپی کسی فائدے کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ محض جمالیاتی لذت کی خاطر ہوتی ہے۔ مثلاً ایک میزخواہ بھدی ہی کیوں نہ ہو کام میں آتی ہے لیکن اگراس پرنقش ونگار بنا دیے جائیں تواس کی افادیت میں ان نقوش سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ گویا فن ہر قسم کے سماجی تقاضوں یا اخلاقی یا فکری افادیت یا مقصدیت سے ماورا قرار دیا گیا۔

ب: اگراس اصول کوتسلیم کرلیا جائے تو پھر حسن کاراز فکروخیال کے بجائے کسی اور شے میں تلاش کرنا ہوگا اوراسے پیکریت یا ہیئت کا نام دے دیا گیا۔کلائیوبیل نے اپنی کتاب ’آرٹ‘ میں اسی ہیئت کے بارے میں لکھاکہ:

What quality is shared by all objects that provoke our asesthtic eomotions? What quality is common to Sta: Sophia and the windows at chartres Mexican sculpture, a persian bowl, Chinese carpets, Gioeto's frescoes at padua, and the masterpieces of fossiu, Pieero della Francesea and Cezaune? Only one answer seems possible- significant form. In each lines and colours comoines in a particular way, certain forms and relations of forms, stir our nesthetic emotions. P.8

اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ فن کی پہچان (گویہاں ادب یا شاعری کے بجائے مصوری زیربحث آئی ہے۔ ظاہری شکل اور ہیئت میں مختلف اجزا کے باہمی آہنگ اور توازن کو قراردیا گیا ہے اوریہ توازن کسی خارجی توازن کا عکس نہیں ہے بلکہ فن پارے کی اندرونی ترتیب سے مربوط ہے۔

ج: فطرت کے خارجی توازن اور آہنگ سے فن کے اندرونی توازن اور آہنگ کا رشتہ فن برائے فن کے مفکرین اور فنکاروںنے توڑ دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ فن فطرت کی نقل نہیں ہے بلکہ فطرت فن کی نقل ہے کیونکہ فطرت میں ربط وترتیب موجودنہیں جب کہ فن فطرت کویہ خصوصیات فراہم کرتا ہے اور اس کے بکھرے ہوئے جلوئوں کوایک وحدت عطا کرتا ہے۔

د: ایک زمانہ وہ تھا جب فنون لطیفہ میں فطرت پرستی اورحقیقت پرستی کے رجحان کی مخالفت عام ہورہی تھی۔ مصوری میں فطری مناظر یا افراد کی تصاویر بنانے کا رجحان ختم ہورہا تھا اور اس کی جگہ لکیر، رنگ اور آہنگ کی مددسے تصویریں بنانے کا میلان عام ہورہا تھا ۔ انہی دنوںبرطانوی مصور وہسلر نے اپنی ماں کی تصویر اسی طرز پر بناکر اس کا نام Arrangement in Grey and Black رکھا تھا۔ موسیقی میں بھی تجرید کی طرف رجحان عام تھا۔ شاعری کو بھی موسیقی اور مصوری کی طرح ہر قسم کے خارجی تعلقات سے ماورا ایک تجریدی آرٹ کی شکل دینے کی کوشش کی گئی اورجس قسم کی ہیئت کو کلائیوبیل نے آرٹ کی پہچان قراردیا ہے اسے صرف ہیئت سے متعلق اور فکر ومعنٰی سے غیرمتعلق قراردیا گیا۔

ہ: جب ہیئت اجتماعی یا سماجی آہنگ سے بے نیاز اور فطری یا خارجی توازن سے غیرمتعلق ٹھہری تو اس کی وحدت اور توازن کے احساس کا دارومدار صرف مذاق سلیم ہی پر منحصرہوگیا اور ظاہر ہے کہ یہ ذوق یہ ’’رچا ہوا‘‘ مذاق سلیم صرف چند گنے چنے فن پرست اور جمالیات دوست حضرات کے حصے میں آیا۔ گویا ادب کا رشتہ ایک طرف سماجی زندگی سے توڑنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں افادیت خالص فن پر غالب آجاتی ہے اور دوسری طرف ہیئت کے اس مجرد اورخالص تصور سے حظ اٹھانے کے لیے ایک ایسی بالغ نظر اور باذوق اقلیت کا وجودلازمی قرارپایا جوعوام سے جمالیاتی حس کے اعتبار سے ممتاز ہو۔ گویا فن سے لطف اٹھانا اورشاعری سے لذت لینا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص ’اشرافیہ‘ کے لیے ممکن ہوا جواپنے حواس اور احساسات کی اس لذت یابی کے لیے باقاعدہ تربیت کرسکے۔

س: تجربے Experience کو فی نفسہ اہمیت دی گئی اوراسی کو فن میں سب کچھ بتایا گیا۔ والٹرپیٹر سے لے کر اڈگرایلن پو اور آسکروائلڈ تک فن کاروں اور فلسفہ طرازوں کی ایک پوری نسل تجربے کوبحیثیت تجربے کے قبول کرنے اوراس کی تجرباتی ندرت میں کیف اور اہتزاز محسوس کرنے میں شامل تھی۔ والٹرپیٹر نے لکھا:

Not the fruit of experience, but the experience itself, is the end.

وائلڈ نے لکھا:

"Emotion for the sake of emotion is the aim of art, and the emotion for the sake of action is the aim of life.

اس طرح ادب، تخلیق ادب اور تنقید ادب کے بارے میں ایک نئی طرز فکر سامنے آئی جس کی بنیاد ہیئت کے ایک نئے تصور پر قائم تھی۔ یہاں ہیئت کا نہ تومحض عروضی یاصنعت گری والا مفہوم مراد تھا نہ اس سے فطرت کی نقالی یا فطرت کے خارجی توازن کی عکاسی مراد تھی بلکہ شاعری کو (اوریہ بات یہاں اہم ہے کہ فن برائے فن کی تحریک نے جس طرح شاعری کو متاثرکیا اتنا ادب کی دوسری اصناف نے نہیں کیا۔ خصوصاً ناول اورافسانوی ادب کسی نہ کسی شکل میں خارجی حقیقتوں سے وابستہ رہے) موسیقی اور مصوری کی تجرید اور ان فنون کی سی ہیئت اور اس ہیئت کی وحدت کی تعمیر کرنے والے مختلف اجزائے ترکیبی کی باہمی ربط وترتیب ہی سے عبارت سمجھا گیا اور انہی کوتخلیق اورتنقید کی اصل قرار دے دیا گیا۔(۸)

یہ لے بیسویں صدی میں اوربڑھی اور اس نے نت نئی صورتیں اختیار کیں۔’’نئی تنقید‘‘ کے نام سے ایک نئی ہیئت پرستانہ فکرابھرنے لگی جوصرف متن شاعری ہی کے مطالعے اور تجزیے اور ہیئتی تحلیل پر زوردیتی تھی اورمتن شعر کے علاوہ باقی سب متعلقات کو فضول جانتی تھی۔ برطانوی نقاد ایف آر لیوس نے متن شعر پر ہی سارا زوردیا اور آئی اے رچرڈ نے بھی نظم کی صحیح قرأت اورالفاظ کی صحیح تفہیم اوران کے باہمی رشتوں کے جمالیاتی اور تخلیقی ادراک تک ہی ادبی تنقید کو محدود رکھا لیکن ایلیٹ اوررچرڈز کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل ایک نظر ۱۹۲۰ء کے اردگرد ابھرنے والے نئی تنقید کے دبستاں اوراس کے پس منظر پر ڈالنا ضروری ہے۔(۹)

۱۹۲۰ء کازمانہ سرمایہ داری نظام کے لیے بڑا سخت گزرا۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اوراقتصادی بحران اپنے شباب پر تھا۔ امریکہ کے جنوبی علاقوں میں غلاموں کی خریدوفروخت کا کاروبار نہ صرف جاری تھا بلکہ ان علاقوں کے ارباب اقتدار جو بڑے بڑے زراعتی فارموں کے مالک تھے اور بے اندازہ دولت رکھتے تھے۔ غلامی کو قائم رکھنے کے حق میں تھے اور اپنے علاقوں کوخاص طورپر ٹی نے سی کوامریکہ کے جنوبی حصوں کا ایتھنز کہتے تھے جہاں یونان کے اس مشہور شہر کا علم وفضل ہی نہیں تھا بلکہ غلامی کا وہ پرانا نظام بھی جوں کا توں قائم تھا ’ٹی نے سی‘ کے ایک چھوٹے شہر وانڈربلٹ میں نئی تنقیدی تحریک نے جنم لیا۔

ہرش Hirsch نامی ایک سیاحت پسند یہودی خاندان کا ایک متمول شخص تھا اس کے اوراس کے بہنوئی کے ڈرائنگ روم میں ایسے نئے نقادوں کا ایک مجمع لگا رہتا تھا جنہوںنے بعد میں ہیئت پرستانہ تنقید کونیا موڑ دیا۔ ہرش نے خودعرب ممالک اور چین کی سیاحت میں عمرکا بڑا حصہ صرف کیا تھا اور سریت اور تصوف سے اسے گہری دلچسپی تھی۔ زمانہ وہ تھا جو معاشی بحران اورسماجی اقدار کی کشمکش سے فکری نجات اور جذباتی پناہ گاہوںکی تلاش میں تھا۔ جمع ہونے والوں میں رین سم، بلیک،ڈونالڈسن جیسے لوگ تھے۔ ایلن ٹیٹ نے Fugitive میں جو خط وکتابت شائع کی اس میں بھی ان محفلوں کے اثرات صاف جھلکتے ہیں۔

پھر۱۹۲۹ء میںامریکہ کا زبردست معاشی بحران آیا، بے روزگاری عام ہوگئی، تجارت اورصنعتی ترقی کی رفتار سست ہوگئی۔ اس معاشی بدحالی نے پوری قوم کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک سال میں خودکشی کی وارداتوں میں ۴۸ فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ یہی زمانہ تھا جب اخبارات، رسائل اور چھاپے خانوں پر بڑے بڑے سرمایہ داروں کی گرفت اور سخت ہوگئی تھی۔ عوام تک پہنچنے کے لیے ادیبوں کوجن واسطوں کی ضرورت تھی وہ سب کے سب سرمایہ داروں کے ہاتھ میں تھے۔ ادب مال تجارت بن کر رہ گیا تھا اور تاجر شاعروںاور ادیبوں سے اپنی شرائط کے مطابق لکھوانے پرقادر تھے۔ اس صورت حال سے گریز کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ لکھنے والا اپنی ذات سے وفاداری، خلوص اور آزادیٔ اظہار کی خاطر چھپنے ہی سے بے نیاز ہوجائے یا کم سے کم اپنے قارئین کواور قارئین تک تحریروں کے پہنچانے والے ذرائع پر قابو رکھنے والے تاجروں اور سرمایہ داروں کے مطالبات کو ٹھکراکر یہ اعلان کردے کہ وہ جوکچھ لکھتا ہے اپنے لیے لکھتا ہے اوراس طرح اس کا تخاطب دوسروں سے ہونے کے بجائے خود اس کی اپنی ذات سے ہوکر رہ جائے۔ اس کا ایک لازمی پہلویہ بھی ہے کہ شاعر یا ادیب اپنی نجی علامتیں استعمال کرنے لگے اور سماج سے رشتہ قائم کرنے والے عمومیت کو رد کرکے زیادہ سے زیادہ تجریدی زبان کی طرف رخ کرے۔ اسی نقطۂ نظر کا تنقیدی اظہار ہیئت پرستی کی شکل میں ہوا۔ ۱۹۳۰ء کے بعدہی ’نئی تنقید‘ کی اہم تصانیف کاریلا سا آگیا۔ رین سم کی God without Thunder پھر ۱۹۳۵ء میں بلیک مورکی Double Agent  (۱۹۳۷ء)میں بروکس کی Understanding Poetry۔

وسائل اظہار میں اجارہ داری سے نکلنے کی ایک راہ یہ بھی تھی کہ نفس مضمون سے فراراختیار کرکے ہیئت میں پناہ لی جائے جوایک طرف توتاریخی تنقید اور اس کے سماجیاتی رشتوں کی نفی کرسکتی ہے اوردوسری طرف ادبی تنقید کوسائنس اور سائنسی نقطۂ نظر کے اثرات سے بھی آزادکرسکتی ہے۔

سب سے پہلا مسئلہ اظہار کا تھا اوریہ مسئلہ شعری اورادبی سطح پر حل ہونے سے پہلے لفظ ومعنی کی سطح پر حل ہونا تھا۔ عام گفتگو اور عام تحریری زبان میں گویا ہرلفظ کسی نہ کسی شے یا خیال کا تصوراتی بدل ہے۔ کسی نہ کسی شے یا خیال کو ظاہرکرنے کا وسیلہ ہے۔ گویا ہرلفظ ایک طرح کا علامتی وسیلۂ اظہار ہے۔ جسے Sign Vehicle قراردیا گیااور جس شے یا خیال کولفظ ظاہرکرتا ہے وہ اس کا مظہر یا Depoton ہے۔ لفظ اور معنٰی کا یہ اظہاراور مظہروالا میکانکی رشتہ ہیئت پرست نقادوں کے نزدیک غیرتخلیقی رشتہ ہے اور تخلیقی انفرادیت کی نفی کرتا ہے اورانسانی ذہن کی خلاقانہ صلاحیتوں کوبرباد کرتا ہے اور ادب کی انفرادیت اور خودمختاری کا مخالف ہے۔ ادب ان معنوں میں لفظ کواستعمال ہی نہیں کرتا۔ ادب کی زبان اس لحاظ سے عام زبان سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ عام زبان میں ہر لفظ کسی نہ کسی ایسی شے کا اظہارکرتا ہے یا اس کا علامتی بدل ہے جو خارجی عوامل سے ظہورپذیرہوتا ہے گویا ہرلفظ کامعروضی بدل Objective Correlative موجود ہوتا ہے۔ جب کہ ادب میں الفاظ اس معروضی بدل کے التزام کے بغیراستعمال ہوتے ہیں۔دوسرے تحریر یا تصویر میں الفاظ اطلاع دینے یا اظہارحقیقت کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ ادب میں ان کی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ ادب میں لفظ کا نہ توقطعی معروضی بدل موجود ہوتا ہے اور نہ کوئی ’حتمی‘ متعین مفہوم بلکہ اس کا رشتہ اطلاعات کے بجائے کیفیات سے ہوتا ہے۔ اس ساری بحث کے دومقاصد تھے۔ ایک ادب کی خودمختاری کا اعلان یعنی اس بات کا دعویٰ کہ ادب الفاظ ومعنی کے استعمال، ان کے باہمی رشتے اظہار کے عمل اور دوسرے تمام معاملات میں زندگی اور علم کے دوسرے شعبوں سے مختلف بھی ہے اوران کے ضابطوں سے آزاد بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ الفاظ کا رشتہ معروضی بدل کی حیثیت سے ہے۔ خارج کی حقیقتوں سے نہیں ہے اور ادب میں الفاظ اشیا یامعروضی تصور یا معنی کو ظاہر نہیں کرتے۔

ان کا ایک مطلب یہ بھی تھا اس نقطۂ نظر سے دوسرے تمام علوم میں زبان وسیلۂ اظہار یا وسیلۂ علم کا کام کرتی ہے جبکہ ادب میں زبان وسیلۂ علم نہیں ہوتی بلکہ فی نفسہٖ علم ہوتی ہے۔ ادب گویا ادب کے علاوہ اورکسی علم یا تصور کانہ تو اظہار کرتا ہے اورنہ وسیلہ بنتا ہے۔ ادب کسی مقصد یا کسی کیفیت یا کسی نفس مضمون کا اظہار یاوسیلہ نہیں ہے بلکہ اپنا آپ ہی مقصد ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہی بات یا وہی نفس مضمون اگر اس مخصوص پیرایہ میں ادا نہ کیا جائے تو وہ ادبی کیفیت کھو بیٹھتا ہے اورادب نہیں کہا جاسکتا مثلاً کسی شعر کے مفہوم کو اگرسیدھے سادے الفاظ میں بیان کردیا جائے تو مفہوم جوں کا توں رہنے کے بعد بھی وہ اپنی شعریت کھو دیتا ہے کیونکہ شعری کیفیت شعر کی اس ترتیب میں پوشیدہ ہے جوخودعلم ہے۔

اسی خیال کو ایلن ٹیٹ نے اپنے مقالے Literature as Knowledge میں پیش کیا ہے اور اس پر اصرار کیا ہے کہ سائنس کا بخشا ہوا علم جزئی ناقص اور دیومالائی یا خرافاتی Mythical ہوتا ہے جبکہ شاعر کا دیا ہوا علم حقیقی ہوتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ذاتی تجربے اور واردات پرہوتی ہے۔

اس طرح ہیئت پرست تنقید نے اظہار کے نظریے ہی کو سرے سے رد کردیا۔ Expressکا لفظ ہی کسی باطنی مفہوم جذبے یا تصور کوخارجی یا بیرونی شکل دینے کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ ہیئت پرستوں کا خیال ہے کہ شاعری کسی قسم کے معنی یا مفہوم (جذبے، کیفیت یا خیال) کا اظہار نہیں کرتی بلکہ جذبہ کیفیت اور خیال شاعری سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی شعر مفہوم، مضمون، جذبہ یا خیال کا تابع نہیں بلکہ یہ سب شاعری کے تابع ہیں۔ ان کے نزدیک شعری زبان کی سطح پر لفظ اورمعنی کا رشتہ انگور اور اس کے رس کا نہیں ہے جوانگورکونچوڑنے سے حاصل ہوتا ہے بلکہ انگوراور اس کے رس سے کشیدکی ہوئی شراب کا ہے جوانگور کے رس سے مختلف ہوجاتی ہے اورکشید ہونے پر اس میں انگور کے سادہ رس کے علاوہ بہت سے دوسرے کیمیاوی عناصر شامل ہوجاتے ہیں جوانگورمیں موجودنہیں تھے۔ گویا معروضی بدل سے آزاد ہوکر شعرمیں لفظ ایک ارتفاعی سطح اختیار کرلیتا ہے جو اظہار کی عام سطح سے مختلف ہوتی ہے۔

اس بات کو سمجھانے کے لیے شطرنج کی مثال بھی پیش کی گئی۔ جس طرح شطرنج کی چند چالوں میں ہر شاطر آزاد ہوتا ہے لیکن بعد کی ہر چال بساط پر پہلے چلی ہوئی چالوں اورمختلف مہروں کی جگہوں سے متعین ہونے لگتی ہے اور ہر چال پہلے کی چالوں کی منطق پر منحصرہوتی ہے اسی طرح شاعری میں بھی ہر لفظ شطرنج کے مہرے کی طرح اپنی منطق اورترتیب اورآہنگ سے دوسرے لفظوںکومتعین کرنے لگتا ہے اورالفاظ (مفہوم اور نفس مضمون سے ماورا ہوکر) اپنی متعین ہیئتی ترتیب اختیار کرنے لگتے ہیں۔  گویاشاعری (اورادب) کے پورے کھیل میں اولیت الفاظ کوحاصل ہے اور شاعری الفاظ کا کھیل ہے جونئی نئی شکلیں، ہیئتیں اور پیکراختیار کرتا ہے اوراس طرح مختلف قسم کی معنوی اور کیفیاتی جہات کوجنم دیتا ہے۔

لفظ گویا ایک الہامی اور فوق فطری اہمیت اختیارکرلیتا ہے جس طرح انجیل میں مسیح کی فوق فطری اور سماوی حیثیت کا اظہار اس طرح ہوا کہ ’’عورت کے پاکیزہ رحم میں لفظ نے خداوند مسیح کی شکل اختیارکرلی۔‘‘اسی طرح شاعری میں لفظ اس قسم کی شکلیں اختیارکرتا ہے اورلفظوں کے باہمی ربط اور آویزش سے نئے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لفظوں کی باہمی آویزش اورٹکرائو سے ایسے مفہوم اور ایسی کیفیات جنم لیتی ہیں جن کا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگریہاں کنفیوشس کے چنگ ینگ کے نظریۂ توازن کے پیرایے میں دیکھا جائے تو نقشہ یہ ہوگا۔

باطنی تنائو    Intexion          Chung

Harmony          مطابقت، ہم آہنگی

خارجی تنائو Extenxion           Yung

Stabilityاستقامت

اس باطنی اور خارجی تنائو کے درمیان پیدا کردہ تنائو یا آویزش کی معیاری شکل ہے جو ارسطو کے نظریۂ کتھارسس سے مماثلت رکھتی ہے۔

اس طرح ہیئت پسند تنقید نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نئی جمالیاتی بوطیقا ترتیب دینے کی کوشش کی۔ یہ بوطیقا الفاظ اور ہیئت کے نئے تصورات پر مبنی تھی جس میں علم کی تعریف عقل اور حواس کے واسطے سے کرنے کے بجائے ادب کے ذریعے کی گئی تھی اور ادب کو جمالیات اورہیئت کے پیرایے میں محدود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس صورت میں ادبی نقاد کا صرف ایک ہی فریضہ باقی رہ جاتا تھا اور وہ تھا علم کوالفاظ کی زنجیروں سے آزادکرانے کا فریضہ، صحیح علم ادب کی اس کیفیت میں مضمر ہے جسے جمالیاتی کہا جاتا ہے اور یہ کیفیت الفاظ ادا نہیں کرتے بلکہ ان کی باہمی ترتیب و آویزش سے یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ان کا لازمی اورلاینفک حصہ ہے۔ نقاد اس کیفیت کو الفاظ کے رسمی تعلقات اور روایتی معنوں سے آزاد کرکے اس کی ندرت اور نرالے پن کے ساتھ پیش کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

اس اعتبار سے ادبی نقاد کا کام نہ تواصول وضوابط وضع کرنے کا ہے نہ اصول وضوابط کے مطابق ادبی شہ پاروں کوجانچنے اور پرکھنے کا ہے نہ کیفیات کی بازآفرینی کا بلکہ ایک طرح کا توازن قائم کرنا ہے جو اندرونی اور بیرونی کشمکش اور تنائو کے درمیان قائم کیا جاسکے اور یہ توازن واضح اور مرئی پیکروں اورہیئتی سانچوںاورٹکڑوں کے درمیان ربط سے پیدا ہوتا ہے اور داخلی وخارجی کشمکش کے دبائو میں مطابقت اور ہم آہنگی سے جنم لیتا ہے۔ اس لحاظ سے ہیئت پرستانہ تنقید کے نظریاتی پہلو کو تین نکات کے ذریعے سمیٹا جاسکتا ہے۔

الف:        ادب خودعلم ہے وسیلۂ علم نہیں ہے نہ وسیلۂ نشاط ہے۔

ب:        جمالیات کی بنیادظاہری اورباطنی تنائو کے درمیان توازن اورآہنگ پر قائم ہے۔

ج:         ادب خودمختار ہے اور دوسرے علوم و فنون کے ضابطوں سے آزاد ہے حتیٰ کہ لفظ ومعنٰی کا رشتہ اور بیان کی نوعیت کے اعتبار سے بھی مختلف ہے۔

(۵)

ہیئت پرستوں میں مختلف گروہ اورانداز نظر موجودہیں۔ ایک طرف برطانوی ہیئت پرست ہیں جنہوںنے اپنی تہذیبی روایت سے رشتہ نہیں توڑا اوراس لحاظ سے ادب کے اخلاقی پہلوسے کبھی بھی یکسرانکار نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ایف آرلیوس کا نقطۂ نظر خاص طورپر قابل توجہ ہے۔ ہرچند کہ ایف آرلیوس متن اورصرف متن کی تنقید پر زوردیتا ہے اورشاعر کی ذات اوراس کے سماجی پس منظرکونظرانداز کردیتا ہے لیکن وہ ادب کے تہذیبی رشتہ کوضرور پیش نظررکھتا ہے جواس کے مقالے English Literature in the Universities مطبوعہ ٹائم لٹریری سپلیمنٹ سے بھی ظاہر ہے جبکہ امریکی ہیئت پرست کلچر کے باغی کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور تہذیب سے تقریباً اپنے سبھی رشتوں کو توڑنے پر اصرار کرتے ہیں اس طرح روسی ہیئت پرستوں کا نقطۂ نظر ان دونوں سے مختلف ہے اورنظم کی ہیئت اوراس کے متن پر زور دینے کے سلسلے میں جیک سن، ہیرلڈبلوم اورجیفری ہارٹ مین جیسے نقاد بھی پیش پیش ہیں لیکن ان سب میں متوازن نقطۂ نظر امریکی نقاد لیونال ٹرلنگ کا ہے جواپنے مقالے Beyond Culture میں اپنی تنقید میں سبھی نقاط نظر سے کام لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کے خیال میں ادبی تنقید آج کی پیچیدہ صورت حال میں اسی وقت ادبی تقاضوں کوپورا کرسکتی ہے جب وہ متن پر بھی پوری توجہ کرے اور ادبی تنقید کے دوسرے نقاط نظرمثلاً نفسیاتی، سماجی اور تقابلی تنقید سے بھی فیض اٹھائے۔

یہاں یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ ہیئت پرستانہ تنقید پرکروچے ایلیٹ اوررچرڈز اور اس کے شاگرد رشید امپسن کے اثرات واضح طورپر منڈلاتے رہے ہیں گوان میں کسی کو بھی شاید محض ہیئت پرست کہنا مناسب نہ ہوگا، لہٰذا ضروری ہوگا کہ مختصراً ان تینوں مفکروں کے بنیادی افکار کا سرسری جائزہ لے لیا جائے۔

کروچے نے اظہار کو نئے معنٰی دیے اس کے نزدیک اظہاردراصل اس عمل کا نام ہے جب انسان باطنی موڑ پر مختلف احساسات کے ٹکڑوںکو چن کر ایک وحدت میں ڈھالتا ہے۔ جب محسوسات کے یہ اجزا ایک وحدت میں ڈھل جاتے ہیں تواظہار کا یہ عمل پورا ہوجاتا ہے۔ اظہار کے اس حقیقی اور داخلی عمل سے خارجی اظہار کا کوئی تعلق نہیں اور باطنی معنی اصل اظہاراور خارجی اظہار کا اگرکوئی تعلق ہے تو صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ قبر کے کتبے کا قبر کے اندر دفن ہونے والے کی ذات سے ہوسکتا ہے۔

کروچے کے نزدیک جمالیاتی تجربہ باطنی آہنگ اور تخلیقی آہنگ سے عبارت ہے اور اس تخلیقی وحدت اور باطنی آہنگ کی بنیاد روح ہے جو اس کے نزدیک حقیقت مطلق ہے۔(۱۰)  ارسطور اور نوافلاطونیوں کے نظریۂ نقل سے آگے بڑھ کر وہ خارجی حقائق سے وقوف اور احساس کے باطنی رشتوں کوکم سے کم فن اورجمالیات کی سطح پر آزاد کرلیتا ہے اوراس طرح:

Having "thus denied the reality of nature in Art" he was led by degrees to deny it everywhere and to discover everywhere its true character, not as reality but as the product of abstracting thought.

کروچے کے نزدیک روح کے مراحل وقوف چار ہیں:

(۱) وجدان، اظہار

(۲) تصورپذیری

(۳) ارادۂ عام

(۴) عقلی اورعالمی تصور کے مطابق ارادۂ عمل

کروچے ان تمام مراحل کوعلی الترتیب جمالیات، منطق، اقتصادیات اوراخلاقیات کے مراحل قرار دیتا ہے۔اس لحاظ سے جمالیات کا مرحلہ یعنی وجدانی، اظہار کا مرحلہ باقی تمام مراحل سے الگ اورمنفرد ہے اوراس سطح پر وہ تصورپذیری اور سماجی وقوف تک سے آزاد ہے لہٰذا کروچے کے نزدیک۔(۱۱)

لیکن یہاں جب ہیئت Form کا ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہری وسیلۂ اظہار نہیں ہے بلکہ باطنی فارم ہے۔ کروچے کے نزدیک (۱۲) اس ابتدائی مرحلہ میں ہر وجدان لازمی طورپر اظہار بھی ہے اس کے لیے زبان یا قلم یا کسی اور وسیلے سے خارجی اظہار کی شکل اختیار کرنا غیرضروری ہے۔ کروچے کے نزدیک The aesthetic fact is form and nothing but.

اس لحاظ سے کروچے کے نزدیک (۱۳) جمالیات کے مختلف تجربات کی تنقید ناممکن ہے نہ ان جمالیاتی تجربات کی درجہ بندی یا ضابطہ بندی کی جاسکتی ہے نہ ان کا تقابلی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے نزدیک اچھے اور برے آرٹ میں کوئی فرق قدر کی سطح پر نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح مختلف فن پاروں کا موازنہ اورمقابلہ بھی ممکن نہیں۔

"Not only is the art of savages not inferior as art, to that of civilized people, if it be correlative to the impressions of the savage, but every individual indeed every moment of the spiritual life of the individual has its own artistic world, none of these worlds can be compared with any other in respect of artistic value.

اس منزل پر ادبی تنقید کے تمام ضابطے بے کار ہوجاتے ہیں اور فن تمام قیود وآداب سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اس کے ثبوت کے طورپر کروچے بار بار ادبی تنقید کے وضع کیے ہوئے اصول سے فن کاروںکی عہد بعہد بغاوت اور روگردانی کو پیش کرتا ہے۔

یہاں کروچے کے تصور زبان کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے ۔ کروچے کے نزدیک عام طورپر استعمال نہ ہونے والے الفاظ ادب میں وسیلۂ اظہار نہیں بنتے بلکہ نئے فن پارے کا خام موادبنتے ہیں اورنئے وجدانی اظہار کے لیے نئے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اس کی مثال وہ اس طرح دیتا ہے کہ جیسے کوئی مجسمہ ساز کانسے کا مجسمہ بنانے کے لیے پہلے کانسے کو بھٹی میں ڈال کرتپاتا ہے تاکہ اسے نئے سانچہ میں ڈھالا جاسکے اور اس کام کے لیے وہ پرانے ازکاررفتہ مگرخوب صورت کانسے کے مجسموں کو بھی بھٹی میں ڈال کر پھر سے خام کانسہ بنالیتا ہے اسی طرح مروجہ الفاظ اپنے روایتی مفاہیم کے ساتھ وجدانی اظہار کے نئے سانچہ میں ڈھلنے کے لیے بھٹی میں ڈال دیے جاتے ہیں اس لیے ادب میں الفاظ کا عام تصور اور عمومی معنویت باقی نہیں رہتی بلکہ انہیں نیاوجوداورنیا جنم ملتا ہے اور وہ ایک نئی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔

آئی اے رچرڈز نے اس موضوع پر نفسیات کے نقطۂ نظر سے غورکیا۔ رچرڈز نے بتایا کہ ہماری جبلتیں فطری طورپر ہم آہنگ نہیں ہیں اورمختلف جبلی جذبوں میں باہمی آویزش اورٹکرائو پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ان باہم متصادم جبلتوں کے درمیان توازن اورآہنگ پیدا کرنے ہی سے ان جبلتوں کا بھرپوراظہار اورمکمل کارفرمائی ممکن ہے اور اسی صورت میں شخصیت کرب محرومی یا فرسٹریشن کا شکارہوتی ہے۔ متضاد جبلتوں کے درمیان ہم آہنگی اور توازن پیدا کرکے انہیں ایک وحدت میں ڈھالنے کا کام ہی جمالیات کا عمل ہے اور جب یہ توازن ہماری شخصیت میں پیدا ہوتا ہے اسی لمحے ہم جمالیاتی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ متضاد جبلتوں سے پیدا کردہ ہم آہنگی کے اس عمل سے ’قدر‘ کا جنم ہوتا ہے اور اسے رچرڈز نے Synaesthesi کا نام دیا ہے۔ اس عمل میں شخصیت دو جبلتوں کے درمیان نہیں بٹتی، نہ کسی ایک جبلت کی سمت اختیار کرتی ہے بلکہ اس توازن سے معروضیت اور مناسب Detachment پیدا ہوتا ہے۔ گویا اس عمل میں (جسے جمالیاتی یا فن کا تخلیقی عمل کہا جاسکتا ہے) ذاتی وابستگی اور داخلی شرکت کے بجائے جذباتی فاصلہ اور توازن پیدا ہوتا ہے جسے کتھارسس یا شانت رس یا تضادات کے حل یا تنائو کی تحلیل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

رچرڈز نے تنائواور تضاد کی اس تحلیل کو دو سطحوں پر دومختلف انداز سے پیش کیا ہے۔ ایک اندرونی Intensive اور دوسری بیرونی Extensive۔

اندرونی تحلیل کا عمل فن کار کی ذات کے اندرپورا ہوتا ہے یعنی فن کار کے مختلف جذبات، احساسات، افکار اور خیالات کے درمیان تنائو اور تضاد کی کیفیات کچھ اس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتی ہیں کہ وہ ایک قدر کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں اوران تمام متضاد جبلتوں کے باہمی مطابقت رکھنے والے اجزا مل کر ایک کیفیاتی وحدت کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔ یہ عمل باطنی ہے اور فن کار کی ذات کے اندرپورا ہوتا ہے۔

لیکن اس کیفیاتی وحدت کو قاری تک پہنچانے کے لیے اورقاری پر وہی کیفیت یا اس سے ملتی جلتی کیفیت طاری کرنے کے لیے فن کار کو بیرونی ذریعوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور وہ مختلف اجزا اور تصورات کے باہمی تضاد تخالف یا تنائو کو دورکرکے ایک ایسی تکنیک تلاش کرتا ہے جو پڑھنے والے تک فن کار کی اندرونی کیفیت کو پہنچا دے۔

رین سم نے اندرونی کیفیت کو Texture یا تانے بانے سے اور بیرونی کیفیت (یعنی اظہار کے عمل کو) Structure یا سانچے سے تعبیرکیا ہے اوران دونوں کو ایک دوسرے سے غیرمتعلق اور غیرمربوط بتایا ہے۔ رین سم کورچرڈز کے نظریۂ مرکب جمالیات (سن استھے سس) پر یہ بھی اعتراض ہے کہ فن پارے میں اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر تضاد اور تنائو تحلیل ہوکر نئے کیفیاتی مرکب میں ڈھلنے کا تصور محض قیاس ہے۔ تنائوکی کسی ایک فن پارے میں موجودگی لازمی طورپر تنائو کے تحلیل ہوکر کسی نئے مرکب میں ڈھلنے کا مترادف نہیں ہے۔

(۶)

ٹی ایس ایلیٹ کے تین تنقیدی نظریات نے بھی جدید ہیئت پرستانہ تنقید پر گہرا اثرڈالا ہے۔

الف: شاعری کے غیرشخصی ہونے کا تصور: ایلیٹ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاعری شخصیت کے ظاہر کرنے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ شخصیت سے گریز کا ذریعہ ہے۔ عام طورپر شاعر کی ذات اس کی شاعری میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کے کلام کے ذریعے اس کی تخیلی زندگی کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر اپنی تخیلی زندگی کو شعری سانچوںمیں ظاہر کرتا ہے اوریہ شعری سانچے ہیئت کی شکل میں کسی نہ کسی حد تک متعین اور مقرر ہیں۔ اس لحاظ سے ہر نظم کی اپنی الگ اور منفرد زندگی ہوتی ہے اور اس زندگی کے اپنے ضوابط اور قانون ہوتے ہیں اور شاعر جوکچھ نظم کرتا ہے وہ اسی ہیئت کے ضوابط کے تحت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایلیٹ کے دواقتباسات درج ذیل ہیں:

The poet has not a 'personality' to express, but a particular medium which is only a medium and not a personality, in which impressions and experiences combine in peculiar and unexpected ward. Impressions and experiences which are important for the man may take no place in poetry, and those which become important in poetry in the may play quite a negligible part in the man, the personality.

دوسرا اقتباس نظم کی آزادزندگی اوراس کے الگ قوانین اورضابطوں کے بارے میں ہے:

We can only say that a poem in some sense, has its own life: that its parts form quite different from a body of neatly-ordered biographical data: that the feeling, or emotion, or vision, resulting from the poem is some thing different from the feeling or emotion or vision in the mind of the poet.

نظم کی مقررہ ہیئت اور ’’آزادزندگی‘‘ اورمتعین ضابطوں کے تسلیم کرنے سے لازمی طورپر ادب میں روایت کی اہمیت کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے اور روایت کے اسی شدید احساس کی بنا پر ایلیٹ نے اپنے کلاسیکیت پسند قرار دیا تھا۔ روایت کی اسی تخلیقی تلاش میں ایلیٹ معروضی متبادل Objective Correeative کی اصطلاح تک پہنچتا ہے جو ایلیٹ کے نظام فکر سے مخصوص ہوگئی ہے۔ فرانسیسی علامت پسند فنکاروں کی طرح ایلیٹ بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ شاعری جذبات کا براہ راست اظہار نہیں کرسکتی اور بقول میلارمے شاعری آخرکار جذبات سے نہیں بلکہ الفاظ سے عبارت ہوتی ہے لہٰذا شاعر کولازمی طورپر اپنے اندرونی جذبات کوظاہرکرنے کے لیے کوئی خارجی یا بیرونی بدل تلاش کرنا ہوتا ہے جوالفاظ کی شکل میں ہوتا ہے اورجس کے ذریعے شاعر اپنی باطنی کیفیت کوایسا خارجی پیکر عطا کرتا ہے جسے دیکھ اورسن کر پڑھنے سننے والے شاعر کی باطنی کیفیت تک پہنچ سکیں۔ یہ گویا رچرڈز Extension ہی کا ایک روپ ہے فرق یہ ہے کہ رچرڈز اندرونی قدر اور بیرونی اظہار میں کوئی ربط تسلیم نہیں کرتا جب کہ ایلیٹ جذبے اور خیال، احساس اور فکر دونوں کے درمیان مکمل سنگم کا قائل ہے کہ اسی سنگم سے فن پیدا ہوتا ہے اس تصور کے ماتحت اندرونی اور بیرونی اظہار کی شکل کچھ اس طرح ہوگی۔

نقشہ

(۳)ایلیٹ کا تیسرا نظریہ شاعری کی تین آوازوں کی اصطلاح کی شکل میں مقبول ہوا۔ شاعری کی پہلی آواز خودکلامی ہے جس میں شاعر گویا خوداپنے سے مخاطب معلوم ہوتا ہے۔ دوسری آواز متکلمانہ ہے جس میں وہ دوسروں سے مخاطب معلوم ہوتا ہے اوراس کے بیان میں گفتگو یا خطاب کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ تیسری آواز وہ ہے جس میں نہ خودکلامی ہے نہ خطابت البتہ زندگی کے جوں کا توں معروضی رنگ میں پیش کرنے کا اندازہ ہوتا ہے جسے ایلیٹ نے نظم کی اپنی زندگی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ گویا ایلن ٹیٹ کے الفاظ میں شاعر اپنے خیالات اوراحساسات کو تجربات پر نافذ نہیں کرتا بلکہ ان کے ذریعے انہیں ظاہرکرتا ہے بلکہ تجربات میں چھپے ہوئے طرزوں Pattern پر سے صرف نقاب ہٹا دیتا ہے۔(۱۴)

یہاں بھی گویا ہیئت کے اندر موجود طرز یں اہم ہیں اوراس اعتبار سے آرٹ (اورشاعری بھی) بنیادی طورپر صحیح ہیئت کی تلاش اور اس ہیئت کے اندر کی طرزوں کی رونمائی اور نقاب کشائی قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے ان خیالات نے ہیئت پرستانہ رویے کومتاثرکیا اور اس مکتبۂ خیال کی تنقیدوں میں ایلیٹ اوررچرڈز کوخاص اہمیت حاصل ہے بعدکورین سم، ایلن ٹیٹ، اذراپائونڈ اورپوور ونٹرس کے تنقیدی افکار نے بھی تنقیدی افکارکو نئے رخ دیے، لیکن بنیادی طورپر ہیئت پرست تنقید آج بھی اسی نظریاتی موقف پر قائم ہے جوان نقادوں کے مضامین نے اسے عطا کیا ہے۔

....

حواشی

 

(۱)         ہومرؔ کا اقتباس یہ ہے:

            ’’اگریہ کہانی تو مجھے سچ سچ سنائے گا تومیں تمام لوگوں میں شہادت دوںگا کہ خدا نے تجھے گیت گانے کا بے مثل ہنر عطا کیا ہے۔

            اس نے ڈھال پر جوتے جانے والے کھیت کی تصویرایسی واقعیت کے ساتھ نقش کی ہے کہ لگتا ہے کہ کھیت کی مٹی سیاہ ہوتی جارہی ہے اوراس پر ہل چل رہا ہے گویہ سب کام سونے کی ڈھال پر کیا گیا ہے۔‘‘

(۲)        اس سلسلے میں Sanskrit Literature کے مصنف Berridale Keitn کا بیان اوراسی کے ساتھ عربی اورتنقید کے بارے میں صاحب صدیقۂ ارم کا بیان ایک ساتھ پڑھنا دلچسپ ہوگا۔ کیتھ سنسکرت شعریات کے سلسلہ میں لکھتا ہے:

The pleasure is comparable to the appreciation of unity with the absolute attained in meditation by the adept, it is something which comes to the man of taste (Sahardaya) and if a man has no taste- as a result of misdeeds in a former birth- he can not experience the feeding. P.128

            صاحب حدیقۂ ارم کا بیان ہے:

’’دقت نظر سے یہ امرپایۂ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ جس طرح کائنات میں بعض چیزوںکا دوسری چیزوں کے ساتھ ایک قسم کا ربط اور تناسب ہے اورکوئی چیز اس ربط سے خالی اور فارغ نہیں ہےاسی طرح الفاظ موضوعہ کواپنے معانی موضوع لہٗ کے ساتھ ایک خاص ربط اور مناسبت ہے عالم صغیریعنی انسان کے اعضا میں یہ ربط ظاہراً پایا جاتا ہے۔ پس عالم کبیر میں بھی یہ ربط اور تناسب موجودہے جس کی کیفیت کا سمجھنا موہبت الٰہی پر موقوف ہے۔

(۳)        ملاحظہ ہو:

Shipley Dictionary of World Literature.

Indian Literary Theory P.225

A.B.Keith: Classical Sanskrit Literature, Heritage of India Series 1923 Pages.121-135

(۴)        چینی شاعری پر کلیم الدین احمدکا مقالہ مطبوعہ معاصر حصہ ۱۳ پٹنہ میں جغرافیہ وجود (چین) کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ مزید ابن انشا کی ترجمہ کی ہوئی چینی نظمیں۔

(۵)        چنگ ینگ کا لغوی ترجمہ L.A.Lyall and King Chien Kingنے The Centre Common کیا ہے اس پر مزید بحث کے لیے آئی اے رچرڈز کی کتاب Foundations of Aesthetics اورمقالہ Doctrine in Poetry بشمولہ میں ملاحظہ ہو۔ Criticism : The Major Texts (Bates)

(۶)        ص: ۱۱۲

(۷)        مثلاً حدیقۂ ارم میں قصیدہ، غزل، رباعی اور مثنوی کے بارے میں جن معیاروں پر زوردیا گیا ہے وہ زیادہ تر ہیئت ہی سے متعلق ہیں:

قصیدہ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ چند ایسے اشعار ہیں جن کا مطلع (بیت اول) کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ ہوں (قصیدے میں عموماً مدح وہجو شکایت روزگار وغیرہ مضامین بیان کیے جاتے ہیں) قصیدہ اکثر پندرہ یا زیادہ اشعار کا ہوتا ہے۔ جن باتوںکی رعایت لازمی قرار دی گئی ہے وہ یہ ہیں حسن مطلع، حسن تخلص، اعتدال ومدح و ہجا، حسن طلب، حسن مقطع۔ اس میں سوائے دوکے باقی سب ہیئت سے متعلق ہیں۔

            غزل کے سلسلہ میں مطلع کے ہر دو مصرع اور باقی اشعار کے صرف دوسرے مصرعوں میں قافیے کے التزام کولازم قرار دیا گیا ہے۔ پندرہ شعر سے زیادہ نہ ہوں اور سلسلۂ کلام مربوط نہ ہو۔

            ’’مثنوی چند ایسے ابیات ہیں جن سب میں تصریع لازم ہے اور تصریع یہ ہے کہ ہیئت کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔‘‘

            ’’رباعی دوبیتی ترانہ کوکہتے ہیں مصرع اول وثانی واربع متحد القافیہ ہوتے ہیں اور مصرع ثالث میں قافیہ لانا لازم نہیں ہے۔ رباعی کے ۲۴وزن ہیں اور بحر ہزج اخرب و اخرم کے ساتھ مختص ہے۔ ص: ۱۲۹تا ۱۳۴

(۸)        بحوالہ حوالہ Literary Criticism A Short Historyص: ۸۶

(۹)        ایضاً

(۱۰)       "Sprit" in the Crocean philosophy is the absolute reality.

"Spirit" generates the contents of experience. G.A. Smith

Encyclopaedia Brittanica 14th ed. Vol 6 732 Crore.

Wimsatt Jr and Cleanth Brooks Literary Criticism A Short History.

(۱۱)        ایضاً ص: ۵۰۲ Aesthetic shape

(۲۱)       ایضاً ص: ۵۱۱

(۳۱)       ایضاً ص: ۵۰۷ بحوالہ Aesthetic Shape xvii-P13

(۱۴)       Short History P 617

 

———————————

بشکریہ: کاروان ادب، لاہور

مطبوعہ: ۱۹۸۹ء

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...