Tuesday, July 11, 2023

جس نے برا کیا اُس کے ساتھ اچھا کرو

 

جس نے برا کیا اُس کے ساتھ اچھا کرو

محمدسراج عظیم

 

وہ جب چھوٹا تھابہت ذہین تھا۔ اس میں بڑا ہوکر اونچا مقام اور بہت بڑا آدمی بننے کا جذبہ تھا۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کا داخلہ ایک مشنری اسکول میں کرایا گیا تھا۔ اس اسکول کی فیس بہت کم تھی، وہ غریب گھرانے کا بچہ تھا،پھر کالا بھی تھا۔ اس لئے اسے گوری نسل کے ٹیچروں سے نفرت اور تعصب کا روز ہی سابقہ پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ کلاس میں جتنے سیاہ فام بچے تھے ان سب کو سب سے پیچھے بینچوں پر بٹھایا جاتا، جبکہ گورے بچوں کے لئے میز کرسیاں ہوتیں۔ اس کو یہ سب بہت برا لگتا، وہ کڑھتا رہتا، وہ سوچتا رہتا ہمارے اندر کیا کمی ہے،یہ گورے لوگ ہمارے ساتھ یہ فرق کیوں کرتے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی اگر کوئی گورا بچہ ٹیچر کے سوال کا صحیح جواب نہ دے پاتا، اسی سوال کا صحیح جواب اگر کوئی کالا بچہ دیتا تو اس کی پٹائی ہوتی۔یہ عجیب بات تھی،بالکل انسانیت کے خلاف۔ وہ سوچتا ایسا کیوں ہے۔ یہ ناانصافی کیوں؟ غلط جواب گورے بچے نے دیا تو سزا اسے ملنی چاہئے۔ جو صحیح جواب دیتا ہے اسے شاباشی ملنی چاہئے۔

ایک دن کلاس میں گورے ٹیچر نے سوال کیا۔ ہمیشہ کی طرح ٹیچر نے پہلے گورے بچوں سے پوچھا۔ کوئی بھی صحیح جواب نہیں دے پایا۔ تب ٹیچر نے کالے بچوں سے پوچھا۔ بچے پٹائی ہونے کے خوف سے ڈرے ہوئے تھے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ تب یہ بچہ کھڑا ہوا اور صحیح جواب دیا۔ ٹیچر نے اس کو بلایا اور چھڑی سے مارنا شروع کیا۔ اس بچے نے ٹیچر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ ’’ سر میں نے صحیح جواب دیا، تو مجھے آپ کیوں سزا دے رہے ہیں۔ سزا تو ان کو ملنی چاہئے جو صحیح جواب نہیں دے سکے ‘‘ اس نے گورے بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ کیونکہ تم لوگ کالے اور گندے ہو، ہم سے کمتر ہو۔ تمہاری ہمت کیسے ہوتی ہے کہ تم اس اسکول میں پڑھو۔ تم کالے کتے گورے بچوں کی برابری نہیں کرسکتے۔ تم ہمارے غلام ہو ہماری خدمت کرنے کے لئے۔ ‘‘ٹیچر نے یہ کہتے ہوئے اس کو اور شدت سے بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ خاموشی سے پٹتا رہا۔ جب ٹیچر تھک گیا تب اس نے کالے بچے کو لات مار کر کلاس سے باہر دھکا دے دیا۔ وہ فرش پر گر گیا۔ سامنے میدان تھا۔ اس کے بہت درد تھا اور وہ غصے میں بھرا ہوا تھا۔ اس نے میدان میں سے ایک پتھر اٹھایا اور کلاس میں تیزی سے گھس کر پتھر ٹیچر کے سر پر مار دیا۔ ٹیچر کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا، وہ وہیں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔

پتھر مار کر وہ بچہ وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ اپنے گھر بھی نہیں گیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر پولیس آئے گی۔ ہوا بھی وہی پولیس اس کے گھر آئی۔ وہ نہیں ملا۔ اس دن اس نے پوری رات جنگل میں گزاری۔ صبح ہوتے ہی پیدل وہ دوسرے شہر کی طرف چل دیا اور کالے لوگوں کے چرچ میں جاکر چھپ گیا۔ اتفاق سے وہاں اس کے والد نے اسے ڈھونڈ لیا اور خاموشی سے کالے لوگوں کے چرچ کے اسکول میں اس کا داخلہ پھر سے کرادیا۔ وہ وہاں پڑھتا رہا اور ہائی اسکول پاس کرکے ایک کالج میں الیکٹرانک میں داخلہ لے لیا۔ اس کا الیکٹرانک گریجویشن پاس کرکے انجینئر بننے کا ارادہ تھا، مگر وہ اپنی قوم پر گوروں کا ظلم برداشت نہیں کرپاتا تھا۔ کالج میں بھی اس کی ایک گورے لیکچرر سے لڑائی ہو گئی۔ اس نے اپنی پڑھائی بیچ میں چھوڑ دی۔

اسی درمیان ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع ہوگئی۔ ہندوستان میں بھی انگریزوں کا ظلم بڑھ گیا تھا۔ ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں میں گاندھی جی بھی شامل تھے۔ انھوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو اہنسا یعنی عدم تشدد کا نعرہ دیا تھا کہ ہم اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے اہنسا وادی ستیہ گرہ کریں گے۔ وہ نوجوان گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے بھی اپنے کچھ ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سوسائٹی بنائی جو اپنے ملک کی آزادی کے لئے عدم تشدد کے راستے پر چل کر جدوجہد کرے۔ وہ جگہ جگہ جلسے کرتے، میٹنگ کرتے۔ اس میں تقریریں ہوتیں۔ حکومت کے خلاف باتیں ہوتیں۔ ان کی خبریں اخبارات میں چھپتیں۔ سوسائٹی کے لوگ حکومت کے خلاف مقدمے دائر کرتے، جلوس نکالتے، احتجاج کرتے مگر عدم تشدد کے راستے پر چلتے۔ حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو راحت دیتی اس نے سختی اور لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔

وہ نوجوان سمجھ گیا کہ یہ گورے عدم تشدد کی زبان سے نہیں سمجھیں گے۔  اس نے دوبارہ پھر سے تخریب کاری کا راستہ اپنا لیا۔ اس کے سارے ساتھی گرفتار ہوچکے تھے۔ وہ الیکٹرانک انجینئر تو نہیں بن پایا مگر بم بنانے لگا اور اس نے کئی سرکاری عمارتوں کو اپنے بنائے ہوئے بموں سے اڑا دیا۔ اس میں ایک سگنل ٹاور، اناج کا گودام، بجلی گھر اور بینک شامل تھے۔ وہ بہت ہوشیاری سے یہ کام کرتا۔ اگر ایک جگہ بم بلاسٹ کرتا تو دوسرا اس جگہ سے دور جہاں کسی کی نظر نہ پہنچی ہو۔ حکومت اس کو گرفتار کرنے میں ناکام تھی، کیونکہ اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ گورنمنٹ نے اس پر انعام کا اعلان کیا۔ آخر کار وہ گرفتار ہوگیا۔ اس پر مقدمہ چلا۔ جج نے اسے سزا سنائی کہ مرنے تک اس کو قید میں رکھا جائے۔ حکومت کا اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ چالاک اور شاطر ہے۔ اس لئے اس کے لئے جیلیں بدلتی رہتیں۔ اس کے گرد بہت سخت پہرہ رہتا۔ جیل کا اسٹاف اس پر بہت ظلم کرتا۔ اس کو تپتی دھوپ میں بھوکا پیاسا کھڑا رکھا جاتا۔ اس کوپویس والے اور جیل کا اسٹاف لات گھونسوں اور بوٹوں سے مارتے۔ جب وہ زخمی اور بے ہوش ہوجاتا چھوڑ دیا جاتا۔ اس کی جیل کی کوٹھری بہت چھوٹی تھی جو دس فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی تھی۔ اس میں ایک چھوٹی سی لوہے کی مضبوط کھڑکی تھی۔اس پر گوروں کی حکومت نے بہت ظلم کیے۔ اس سے کہا جاتا اگر تم اپنے ملک کو آزاد کرانے کا ارادہ ترک کر دو تو تم آزاد کردیے جاؤ گے، مگر وہ یہی کہتا میں ایک دن تم سے اپنے ملک کو آزاد کراکے رہوں گا ورنہ جیل میں ہی مر جاؤں گا۔ وہ ایک جیل میں پہنچایا گیا۔ وہاں ایک گارڈ بہت ظالم اور سفاک تھا۔ وہ اس کو بے تحاشا ڈنڈوں اور لات گھونسوں سے مارتا۔ جب وہ بے ہوش ہوکر گرنے لگتا اور پانی مانگتا تب وہ اس کے سر پر پیشاب کردیتا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور گوروں کے سامنے نہیں جھکا۔

آخر وہ دن بھی آیا کہ اس قیدی کا صبر اور ہمت کام آئی اور ستائیس سال بعد اس کو رہائی مل گئی۔پورے ملک میں اس کے آزاد ہونے پر جشن منایا گیا۔ دنیا میں اس کی خبریں چھپیں۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ جیل میں رہنے والا قیدی کے نام سے مشہور ہوا جو اپنے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتا رہا، مگر وہ اپنے مقصد کو نہیں بھولا۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد اس نے پھر آزادی کی تحریک چلائی۔ اس وقت پورا ملک اس کے ساتھ تھا۔ گوروں کو اب آزادی کے متوالے کالوں کو قابو میں کرنا مشکل ہورہا تھا۔ ایک دن وہ آیا جب گوروں نے مجبور ہوکر اس ملک کی باگ ڈور کالوں کو سونپ دی۔ ملک آزاد ہوگیا اور لوگوں نے اس قیدی کو اپنے ملک کا پہلا کالا صدر بنادیا حالانکہ وہ صدر نہیں بننا چاہتا تھا مگر لوگ نہیں مانے۔ اس لئے اس کو لوگوں کی خواہش کا احترام کرنا پڑا۔

ایک دن وہ اپنے کسی دورے پر نکلا ہوا تھا۔ راستے میں ایک گاؤں پڑا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ صدر کو بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس نے ایک ڈھابے پر اپنا قافلہ رکوا دیا۔ ڈھابے والا اور وہاں بیٹھے سارے لوگ خوش ہوگئے۔ اس نے اپنے کھانے کا آرڈر دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے سیکورٹی آفیسر کو بلا کر ڈھابے کی ایک جانب اشارہ کرکے کہا اس شخص کو یہاں میری ٹیبل پر  بلالاؤ۔اس سے کہنا اپنا کھانا لے کر یہاں آجائے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ وہ شخص آگیا۔ وہ صدر کے سامنے بیٹھ گیا اور کھانا کھانے لگا مگر وہ جتنی دیر کھانا کھاتا رہا اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ پھر وہ چلا گیا۔ سیکورٹی آفیسر نے صدر سے کہا سر لگتا ہے یہ شخص بہت بیمار تھا اس وجہ سے ہاتھ کانپ رہے تھے۔اس کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔

صدر سیکورٹی آفیسر کی بات سن کر بہت دھیمے لہجے میں بولے۔ نہیں یہ بیمار نہیں تھا۔ بلکہ بے انتہا ڈرا ہوا تھا۔ میں جس جیل میں بند تھا یہ وہاں گارڈ تھا اور میرے اوپر شدید تشدد کیا کرتا تھا۔ جب میں بے ہوش ہونے لگتا اور پانی مانگتا تو یہ میرے سر پر پیشاب کردیتا تھا۔ اب اس کے ہاتھ اس وجہ سے کانپ رہے تھے کہ میں صدر ہوگیا ہوں تو یہ سمجھ رہا تھا، شاید میں اس سے انتقام لوں گا۔ وہی سلوک اس کے ساتھ کروں گا جو یہ میرے ساتھ کرنے کا عادی تھا، مگر انتقام لینے کا جذبہ قوموں کی تعمیر میں مدد کرنے کے بجائے بربادی کی طرف لے جاتا ہے، لیکن صبر اور صلہ رحمی کا جذبہ قوموں کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اس کے بعد اس سیاہ فام صدر نے انسانیت کے لئے ایک تاریخ ساز جملہ ادا کیا:

’’ کمزور شخصیت کے لوگ معاف کرنے میں تاخیر سے کام لیتے ہیں، مگر مضبوط کردار کے لوگ معاف کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ‘‘

جانتے ہیں یہ اپنے ملک و قوم کی آزادی کے جذبے سے سرشار بچہ، ستائیس سال تک جیل میں جبر و تشدد برداشت کرنے والا قیدی، اپنے اوپر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دینے والے گارڈ کو معاف کر دینے والا سیاہ فام صدر کون تھا؟

یہ ساؤتھ افریقہ کے بلند قامت، قید وبند کی ستائیس سال تاریخ کی سب سے لمبی جیل میں عمر گزارنے اور زندگی میں مضبوط ارادوں سے پر کردار والی شخصیت ’’ نیلسن منڈیلا ‘‘ تھے۔

 

A-47, ZAKIR BAGH, OKHLA ROAD,

NEAR SURIYA HOTEL,JAMIA NAGAR,

NEW DELHI-110025

Mob.: 9990661282

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...