Tuesday, July 11, 2023

یوسف بخاری دہلوی کی خاکہ نگاری

 

یوسف بخاری دہلوی کی خاکہ نگاری

محمد عامر

اردو ادب میں سید یوسف بخاری دہلوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ اردو کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ دلی اور دلی کے لوگ ان کاخاص موضوع ہے۔ ان کی تمام تصانیف میں دلی کی زبان کو دیکھا جاسکتاہے۔ انھوں نے اردو میں کئی گراں مایہ تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں افسانے، انشائیے اور شعری مجموعے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے خاکوںکامجموعہ’یارانِ رفتہ‘۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں سات اشخاص کے خاکے ہیں، جن میں مولوی عبدالحق، میر باقی علی، میر ناصر علی، مولانا عبدالرحمن دہلوی، سرراس مسعود، قاری عباس حسین دہلوی اور سید ہاشمی فریدآبادی کے خاکے شامل ہیں۔ جیساکہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ یوسف بخاری کا پسندیدہ موضوع دلی ہے۔ اسی طرح اس مجموعہ میں پیش کردہ سبھی شخصیات دلی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہی معتبر شخصیات کے پس پردہ یوسف بخاری دلی کے گلی کوچوںاور تہذیبی زندگی کی سیر کراتے ہیں۔ علاوہ ازیں خاکہ نگار موضوعِ خاکہ سے اپنے مخلصانہ تعلقات بھی واضح کرتے ہیں۔ یوسف بخاری اپنے تمام خاکوں میں پہلے موضوع خاکہ کی سیرت وشخصیت کو اجاگر کرتے ہیں بعد ازاں ان سے اپنے تعلقات کو دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تمام خاکوں سے خاکہ نگار کی شخصیت پربھی روشنی پڑتی ہے، جن میں یوسف بخاری اپنی ہجرت کے واقعات، تقسیم ہند سے رونما ہونے والے خوں چکاں حادثات وغیرہ کو خاص طور پر دائرۂ کار میں لاتے ہیں۔ زیربحث مجموعہ میں یوسف بخاری موضوع خاکہ سے اپنے روابط کو بیان کرنے میں جذبات سے کام لیتے ہیں۔ مجموعہ میں شامل خاکوں کے مطالعے کے بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ خاکہ نگار نے ان خاکوں کو تعزیت کے لیے تحریر کیا ہے۔ بہر حال موضوع خاکہ کی شخصیت کوقاری کے سامنے لانے  کے لیے خاکہ نگار نے ان کے افکار ونظریات اور رہن سہن کو بھی بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیںکچھ خاکوں میں موضوع خاکہ کے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ بعض اوقات یوسف بخاری موضوع خاکہ کے خاندانی پس منظر کے بیان میں طوالت سے ضرور کام لیتے ہیں، مگر جونہی انھیں اس بات کااحساس ہوتا ہے تو وہ بات کو مختصر کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

 زیر بحث مجموعہ میں شامل سب سے پہلا خاکہ مولوی عبدالحق کا ہے، جس کا عنوان ’بابائے اردو مولوی عبدالحق (دلی کا روڑا)‘ ہے۔ اس خاکہ میں یوسف بخاری نے مولوی عبدالحق سے اپنے مراسم کو بیان کرنے میں ہی کئی صفحات سیاہ کردیے ہیں۔ تھوڑا بہت انھوںنے مولوی عبدالحق کے مزاج اور عادات واطوارکو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے یہ خاکہ نہ ہوکر ایک تاثراتی مضمون محسوس ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے نہ تو مولوی عبدالحق کی سیرت وصورت نمایاں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی زندگی کے کسی گوشے کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ اس میں یوسف بخاری نے مولوی عبدالحق سے اپنے مراسم کو بیان کرکے ان کے مزاج کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ دیگر خاکوں میں ذیلی طور پر مولوی عبدالحق کے کچھ افکار ونظریات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے، مگر ان میں بھی زیادہ تران کے مزاج اور اردوادب کے تئیں مخلصانہ رویہ کو ہی موضوع بنایا ہے۔ مولوی عبدالحق کے دوستوں اور عزیزوں کے تئیںمخلصانہ رویے اور مزاج کے متعلق کچھ یوں لکھاہے:

’’... وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں سے اس طرح ملتے تھے کہ وہ ملنے والا کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتابلکہ اپنے آپ کچھ بڑا ہی محسوس کرنے لگتا۔ مبتدی ہو یا مشتاق وہ ہرشخص کی فطری صلاحیت، علمی ذوق اور قوت عمل کو فوراً بھانپ لیتے تھے اور پھر اس کے حسبِ حال اس کی ہمت افزائی کیا کرتے تھے تاکہ اس میں ادب کا صحیح ذوق اور جذبہ پیدا ہو اور مستقبل میں وہ اپنے قلم سے فروغ کے لیے نت نئی راہیں ہموار کرے‘‘۔ (۱)

مولوی عبدالحق پر لکھے گئے خاکہ سے یہی انکشاف ہوتا ہے کہ یوسف بخاری مولوی عبدالحق کی علمی وادبی صلاحیت سے متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خاکہ میں جہاں مولوی عبدالحق کا مزاج سامنے آتا ہے، وہیں خاکہ نگار کے مراسم کی پوری داستان سامنے آتی ہے، جس میں علمی وادبی سرگرمیاں خاص طوپردیکھی جاسکتی ہیں۔

مجموعہ ’یارانِ رفتہ‘ میں شامل دوسرا خاکہ ’میر باقر علی-داستان گو‘ہے۔ یہ بھی دلی کے ایک بزرگ شخص ہیں، جو اپنے زمانے کے داستان گویوں میں بڑا نام تصور کیے جاتے تھے۔ اس خاکہ میں خاکہ نگار نے پہلے اپنے مراسم اور تعلقات کو بیان کیا ہے بعد ازاں میرباقرعلی کے مختصر سوانحی کوائف کو پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مزاج اور داستان گوئی کی فن کارا نہ صلاحیت کو موضوع بنایا ہے۔ بہرحال اس خاکہ میں خاکہ نگار نے میر باقر علی کی تلخ مزاجی اور داستان گوئی پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ میر باقرعلی کے خاکے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ان کی داستان کے کچھ حصہ کو نقل کیا گیا ہے۔

یارانِ رفتہ‘ میں شامل تیسرا خاکہ ’خان بہادر میر ناصر علی دہلوی‘ کا ہے۔ اس خاکے میں خاکہ نگار نے پہلے ان کے ساتھ اپنے مراسم کا ذکر کیا ہے ۔ بعدازاں ان کے سوانح کوائف اور سیرت وصورت کو مختصر انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ خاکہ دوسرے خاکوں کی بہ نسبت فنی لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس میں میر ناصر علی کے مزاج کے مختلف پہلوؤں کو دکھا یا ہے، جس میں ان کی خوبیوں کے ساتھ کمیاں بھی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ یوسف بخاری نے میرناصر علی کے معمولات زندگی کاخاکہ کچھ یوں کھینچا ہے۔ خاکے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’میرصاحب کا یہ روزانہ کا معمول تھا کہ سر پر پگڑی نماعمامہ، لمبا چغہ پہنے پیچھے کمر پر ہاتھ باندھے جھومتے جھامتے اپنے گھر میں برآمد ہوتے۔ فراش خانے کی ایک دو دکانوں پرٹھیکیاں لیتے جامع مسجد دہلی کے چوک پر کباڑیوں کی دکانوں پر کتب فروشوں کے پاس پہنچ جاتے۔ کتب فروش بڑے ادب سے ان کو مختلف کتابیں اور مخطوطات دکھاتے، میرصاحب کچھ نہ کچھ روزانہ لےکر آتے، نماز عشا کے لگ بھگ گھر پہنچتے، دلی میں لالہ سری رام کے بعد انہی کا کتب خانہ تھا۔ انصار ناصری کی زبانی راہ چلتے کا یہ لطیفہ بھی ملاحظہ ہو۔’’میرصاحب چلتے چلتے چپکے سے کسی لونڈے کو چانٹامار دیتے، وہ پلٹ کر بری سی گالی دیتا اور میرصاحب کے دل کی کلی جیسے کھل جاتی’’ہاہاہا-دلی کا روڑا ہے نا۔ کیا بات کہی ہے ، مزہ آگیا۔‘‘ (۲)

درج بالااقتباس میں خاکہ نگار نے جہاں میرناصرعلی کے معمولات زندگی کو بیان کیا ہے وہیں ان کی کمیوں کو بھی لکھنے میں جھجک محسوس نہیں کی ہے۔علاوہ ازیںاس خاکہ میں خاکہ نگار نے میرناصرعلی کی علمی وادبی صلاحیت اور تلخ مزاجی کو غیر جانب دارانہ انداز میں پیش کرکے خاکہ کو صرف دلچسپ ہی نہیں بنایا ہے، بلکہ میر ناصرعلی کامتحرک خاکہ پیش کردیاہے،جس میں میر ناصر علی چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ مذکورہ خاکے کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ میرناصر علی اردو زبان وادب سے بے پناہ محبت کرتے تھے،لیکن تنگ مزاجی کے سبب ان کی علمی وادبی صلاحیت سے کوئی بہرہ ور نہ ہوسکا۔ مزاج میں تنگی ہونے کے باعث ان سے ملنے والوںکی تعداد کا فی کم تھی۔ خود خاکہ نگار سے ان کی ذاتی ملاقات محدود تھی، مگر قلیل ملاقات کے باوجود یوسف بخاری ان کی علمی وادبی صلاحیت کے دل سے قائل تھے۔ میر ناصر علی کی یہی علمی وادبی صلاحیت خاکہ تحریر کرنے کی وجہ بھی بنی۔خاکہ نگار میر ناصر علی کی علمی وادبی صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’الغرض قدرت نے انھیں عجیب دل ودماغ عطا کیا تھا۔ انھیں زبان وادب کا ایک خاص شوق اور مذاق سلیم حاصل تھا۔ آغاز شباب ہی سے وہ بحرادب کے شناور بن گئے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر تک اردو اخبارات اور رسائل میں مقالات نگاری کا کوئی نمایاں اسلوب قائم نہ ہواتھا۔ سرسید اس کے موجد تھے۔ میر صاحب نے سرسید کے’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مقابلے میں ’’تیرہویں صدی‘‘ نکالاتھااور اس میں وہ سرسید کی آزاد خیالی کے خلاف بڑے شدومد سے لکھاکرتے تھے، لیکن انجام کار دیکھنے میں یہ آیا کہ آخر میں خود میرصاحب دہریے مشہور ہوگئے۔‘‘ (۳)

درج بالا اقتباس میں خاکہ نگار نے میر ناصر علی کی علمی وادبی صلاحیت کو بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے، ساتھ ہی آخرعمر میں میرناصرعلی کے دہریے ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، مگر یوسف بخاری نے اس جانب کوئی خاص توجہ مرکوز نہیں کرائی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ درج بالا اقتباس میں پیش کردہ واقعات خاکہ نگار نے کہیں زبانی سن رکھے تھے۔

زیر بحث مجموعہ میںشامل’شمس العلما مولوی عبدالرحمن دہلوی‘کا خا کہ کافی اہم ہے۔ مولوی عبدالرحمن دلی کے رہنے والے تھے۔ خاکہ نگارنے خاکے کی ابتدا میں دلی کے گلی کوچوں اور بازاروں کا حسین اور دلکش منظر پیش کیا ہے۔ بعد ازاں مولوی صاحب سے اپنے مراسم کو بیان کیا ہے۔اس خاکہ کا کچھ حصہ مکالماتی انداز میں لکھا گیا ہے، جس سے قاری مولوی صاحب کے مزاج اور علمی ذوق سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے۔مولوی صاحب دلی کے ایک گمنام شخص تھے، جنھیں یوسف بخاری نے ضعیف العمری میں دیکھا تھا۔ چوں کہ یوسف بخاری دلی میں کتابوں کے پیشے سے منسلک تھے اور اسی تجارت نے انھیں مولوی صاحب سے ملنے کا موقع عنایت کیاتھا۔ بہرحال مولوی صاحب سے مختصر سی ملاقات نے خاکہ نگار کے دل ودماغ میں ان کے تئیں جوعزت واحترام بخشی، وہی خاکہ تحریر کرنے کی وجہ بنی۔چوں کہ مولوی صاحب مطالعے کے شوقین اور درس وتدریس سے وابستہ تھے، جس کی بنا پر یوسف بخاری کو ان سے باربار ملنے کا موقع ملتا تھا، اسی لیے اس خاکے میں ان کی زندگی اور سیرت کی بھرپور عکاسی ملتی ہے، جس میں یوسف بخاری نے مولوی صاحب کے روزمرہ کے حالات کے ساتھ ان کے علم وادب کے کارنامے کو نہایت ہی شگفتہ، سادہ اور دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ خاکہ نگار نے مولوی صاحب کی قلمی تصویر کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ مولوی صاحب کے معمولات زندگی پر بھی ہلکی سی روشنی پڑجاتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’گرمی ہو یا جاڑا ان کے لیے دونوں موسم یکساں تھے۔ نماز سے فارغ ہوکرصبح ۹بجے سے۹بجے تک کالج جانے سے قبل اور شام کو مابین عصرومغرب مولوی صاحب اپنے حجرے ہی میں ملتے تھے۔ درازقد، گندمی رنگ، کتابی چہرہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی روشن غلافی آنکھیں، ابرو جداجدا ، گوش قدرے دراز، متوسط دہانہ، مختصر بھرواں ریش،۱۹۴۷ء تک خضاب آلودہ رہی، پاکستان میں آکر کافوری ہوگئی تھی۔ گرمی کے دن اکثر برہنہ سر، ڈھیلاڈھالا ململ کا کرتا، چوڑی موری کا پاجامہ زیب تن کیے، دائیں بائیں دونوں ہاتھ پلنگ پرٹکائے، ٹانگیں نیچے لٹکائے آرام سے بیٹھتے ہیں۔‘‘ (۴)

درج بالااقتباس میں خاکہ نگار نے مولوی صاحب سے متعلق جن باتوں کا ذکر کیا ہے ان سے ان کے رہن سہن کے ساتھ مزاج کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوجاتی ہے۔

زیربحث مجموعہ میں’ سرراس مسعود‘ کاخاکہ بھی کافی اہمیت کاحامل ہے۔ اس خاکہ میں پہلے یوسف بخاری نے اپنے مراسم اور تعلقات کی پوری داستان کو بیان کیا ہے بعد ازاں ان کی شخصیت اور کارنامے کو ضبط تحریر میں لایا ہے۔ اس خاکہ میں یوسف بخاری نے سرراس مسعود سے اپنے رشتہ کو بھی واضح کیا ہے۔ یوسف بخاری سرراس مسعود کی شخصیت اور ان کے اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سرراس مسعود کی عالم گیرشخصیت اور ان کی زندگی کے کارنامے جو جریدۂ عالم پرثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔ میں اس مختصر سی گفتگو میں صرف ان تین ملاقاتوں کا خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو میری خوش بختی سے آج سے نصف صدی قبل مجھے ان سے نصیب ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں نے آںمرحوم ومغفور کے اعلیٰ کردار اور اخلاق حسنہ کا میری لوح دل پر ایک ایسا نقش چھوڑا ہے جو نہ تو کبھی ماند ہوسکتا ہے اور نہ میں کبھی اسے فراموش کرسکتا ہوں۔‘‘ (۵)

علاوہ ازیں یوسف بخاری نے سرراس مسعود کی شگفتہ مزاجی اور لوگوں کے تئیں ان کے مخلصانہ رویے کو پیش کیا ہے۔ سرراس مسعود اور یوسف بخاری کے مابین جو رشتہ تھا اس سے شاید اردو دنیا کم ہی واقف ہے۔ دراصل سرسید یوسف بخاری کے دادا کے حقیقی خالہ زاد بھائی تھے۔ بخاری خاندان اور سرسید کے مابین اس رشتے داری سے خود خاکہ نگار بھی ایک زمانے تک ناواقف تھے۔ سرراس مسعود سے ان کی ملاقات بھی اسی  وجہ سے ہوئی تھی۔ بہرحال سرراس مسعود کے خاکہ میں یوسف بخاری نے اپنے رشتہ کو کم بیان کرکے ان کے افکار ونظریات اور کارنامے کو ہی پیش کیا ہے۔ سرراس مسعود کا مزاج اور دوسروں کے تئیں ہمدردی اس خاکہ کی پوری فضا پر غالب ہے۔

یارانِ رفتہ‘ میں شامل ایک خاکہ’ قاری عباس حسین دہلوی‘کاہے۔ اس میں بھی یوسف بخاری نے پہلے موضوع خاکہ سے اپنے تعلقات اور مراسم کی پوری کہانی کو بیان کیا ہے بعدازاں ان کے کارنامے پر روشنی ڈالی ہے۔ جیساکہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاری عباس حسین دہلوی اور دلی کے رہنے والے تھے۔ اوپر ذکر کیا جاچکاہے کہ یوسف بخاری کوجتنا  دلی سے لگاؤ تھا اتنا ہی انہیں دلی کی عظیم شخصیات سے بھی تھا۔ قاری عباس حسین دہلوی برگزیدہ شخصیت کے مالک تھے،جن کویوسف بخاری نے ان کی زندگی کے آخری ایام میں دیکھا تھا ۔ قاری صاحب دراصل میدان صحافت کے شہسوار تھے۔ ان کی زندگی صحافت کے لیے وقف تھی۔ صحافت کے علاوہ سیاسی میدان کے بھی شہسوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس خاکہ میں صحافتی چشمک و تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے وہیں اس عہد کی سیاسی ہلچل کی پوری فضا خاکہ میں محصور ہے۔ قاری صاحب کابیک وقت صحافت اور سیاست سے گہرالگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ جہاںاس خاکہ میں اس دور کے دوسرے سیاسی رہنماؤں کا ہلکا سا خاکہ دیکھنے کو ملتا ہے،وہیں صحافت میں ان کا مقابلہ مولانا محمد علی جوہر سے دیکھاجاسکتاہے۔ خاکہ نگار نے قاری صاحب کی سیاسی دلچسپیوں کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’...قاری عبا س صاحب نے تحریک خلافت اور دیگر سیاسی تحریکات میں نمایاں حصہ لیا ۔قومی تحریکات میں شریک ہونے کی وجہ سے انھوںنے نہ صرف اپنے وقت کے بڑے بڑے لیڈروں کو دیکھا بلکہ ان کے دوش بدوش اپنی قابلیت اور بساط کے مطابق کام بھی لیا۔ اس لحاظ سے ان کا دائرۂ ملاقات بہت وسیع تھا۔ مولانا ابوالکلام، مولانا حسرت موہانی، شفاعت اللہ خان، پنڈت موتی لعل نہرو، پنڈت مدن موہن مالویہ، مسٹر سی آر داس، مسٹر تلک اور وہ شخصیتیں جن کا ذکر سابقہ سطور میں آچکا ہے ان سب کے ساتھ قاری صاحب کاکافی ربط وضبط تھا۔‘‘ (۶)

درج بالااقتباس سے قاری صاحب کی سیاسی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ علاوہ ازیں اس خاکہ میں اس عہد کی صحافت کو بغور دیکھا جاسکتاہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خاکہ جہاں قاری عباس صاحب کی سیرت اور افکار ونظریات کو بیان کرتا ہے وہیں اس عہد کی سیاست کو نمایاں طور پر اجاگر کرتا ہے۔

زیربحث مجموعہ کا سب اہم خاکہ’سید ہاشمی فریدآبادی (ساتواں درویش ) ‘ہے۔ یہ خاکہ کئی اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ سید ہاشمی فرید آبادی کا شمار اردو ادب کے اہم ادیبوں میں ہوتا ہے۔اس خاکہ کی ابتدا میں خاکہ نگار نے اردو ادب کی تاریخ کاجائزہ لیا ہے، جس میں سرسید اور ان کے رفقا کا ہلکا ساخاکہ سامنے آتا ہے۔علاوہ ازیں مذکورہ خاکہ میں مولوی عبدالحق سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ زیر بحث خاکہ میں مولوی عبدالحق سے متعلق تفصیلی گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ ہاشمی فرید آبادی  پاکستان میں انجمن ترقی اردو سے کافی قریب تھے،جس وقت مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو پاکستان کے روح رواں تھے۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ خاکہ میں خاکہ نگارنے ہاشمی فریدآبادی کے ساتھ انجمن ترقی اردو پاکستان اور اس کے روح رواں مولوی عبدالحق کی پوری کارکردگی کو باریک بینی سے پیش کیا ہے۔ہاشمی فرید آبادی کے خاکے سے ان کی شخصیت کاسماں تونہیں بندھتا، لیکن جہاں ان کی شخصیت کے اسرارورموز پر بات کی ہے اس سے ان کے مزاج اور سیرت کوبغور دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’حالت صیام میں عموماً بعض لوگوں کا مزاج چڑچڑا ہوجاتا ہے لیکن ہاشمی صاحب میں یہ بات نہ تھی۔ میں نے بہ تقاضائے عمر ان کے چہرے پر کمزوری اور نقاہت کے آثار تو ہمیشہ پائے لیکن کبھی ان کو ناشگفتہ مزاج نہیں پایا۔ دفتر میں حاضر ہاشمی کے علاوہ وہ روزے میں زیادہ تر گھر ہی پر رہنا پسند کرتے تھے۔افطار بھی گھر ہی پر مرغوب تھا۔ چوں کہ حقے کے شوقین تھے اس لیے افطار ونماز کے بعد اس کی طلب اٹھتی تھی اور حقہ ہر جگہ نہیں مل سکتا تھا۔ کوئی دوست افطاری کے لیے مدعو کرتا تو وہاں ضرور جاتے اور اگر کوئی بے تکلف دوست آجاتا تو گھر کے بجائے کسی پر فضا مقام پر روزہ افطار کراتے۔‘‘(۷)

درج بالا اقتباس سے ہاشمی صاحب کے مزاج کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جیسا کہ سبھی کو معلوم ہے کہ یوسف بخاری کی جائے پیدائش د لی تھی اور اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ اسی دلی کے کوچہ وبازار اور ادبی سرگرمیوں میں گزارا تھا۔ اسی بنا پر وہ دلی اوردلی کی تہذیب سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یوسف بخاری نے اپنی تمام تر تصانیف میں دلی اور دلی کی تہذیبی وثقافتی زندگی کو ہی خاص طور پر موضوع بنایا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یوسف بخاری ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تھے اور وہیں قیام پذیر ہوئے، لیکن ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دلی چھوڑنے کے بعد کبھی دلی کو بھلا نہ سکے۔ مذکورہ مجموعہ میں جتنے خاکے شامل ہیں ان سب خاکوں میں جگہ جگہ دلی کی تہذیب وثقافت کابیان ملتاہے۔  قیامِ پاکستان  کے بعد یوسف بخاری دلی کو دلی مرحوم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ دلی مرحوم یوسف بخاری کے نزدیک اس معنٰی میں ہے کہ دلی کی تہذیب وثقافت جو کہ تقسیم ہند سے قبل تھی وہ تقسیم ہند کے بعد باقی نہ رہی۔یوسف بخاری نے اپنے خاکوں میں ہجرت کے المیے اور غم کوواضح طورپر بیان تو نہیں کیاہے، ہاں! غور کرنے کے بعد ایسا محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت کا غم ان کے سینے میں سمایاہواتھا۔

یوسف بخاری کو زبان وبیان پر خاص ملکہ حاصل ہے وہ دلی کی ٹکسالی زبان و محاوروں کا استعمال بخوبی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی توایسامحسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کی زبان کی تقلید کررہے ہیں۔ روزمرہ کی بول چال اور تشبیہات واستعارات کے برمحل استعمال سے موضوع خاکہ اور خاکے کے فنی حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ مجموعہ کے بیشتر خاکوں میں سوانحی اور تاثراتی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ یوسف بخاری نے خاکہ نگاری کے ذریعہ دلی کی تہذیب وثقافت کو پیش کرکے اسے زندۂ جاوید بنادیا ہے۔

rrr

حواشی:

(۱)         یوسف بخاری؛ یارانِ رفتہ، کراچی؛ اسلوب پوسٹ بک،۱۹۸۷ء،ص:۱۰

(۲)        ایضاً،ص: ۴۴

(۳)        ایضاً،ص: ۴۸-۴۹

(۴)        ایضاً،ص: ۶۰

(۵)        ایضاً،ص: ۵۹

(۶)        ایضاً،ص: ۹۴

(۷)        ایضاً،ص: ۱۲۵

———————————

002-نرمدا ہاسٹل، جواہرلعل نہرویونیورسٹی،

 نئی دہلی110067-

موبائل:9868561984

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...