Tuesday, July 11, 2023

۱۹۸۰ء کے بعد اردو ناولوں کی صورتحال: ایک جائزہ

 

۱۹۸۰ء کے بعد اردو ناولوں کی صورتحال: ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد شارب

عصر حاضر میں ناولوں کی ایک نئی دنیا قارئین کے پیش نظر آباد ہو چکی ہے تاہم ۱۹۸۰ء کے بعد اردو ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں کئی ناول قابل ذکر ہیں۔ ان ناولوں میں مختلف موضوعات در آئے ہیں جن میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ روایت سے انحراف بھی دیکھنے کو ملتا  ہے ۔موجودہ عہد میں اس کے برقی مطالعہ کا کافی شہرہ ہے جس کے تناظر میں ناول اب سوشل ویب سائٹس اور موبائل تک پر پڑھے جا رہے ہیں۔ عالمی جنگ کے امکانات ،تقسیم ملک،عالمی سطح پر ہونے والے دہشت گردانہ واقعات ،دلت ڈسکورس، مادیات کی حصولیابی، عہد کورونا کے تناظر میں پسماندہ طبقے کی بدحالی اور ان کا استحصال،مذہبی شدت پسندی اوراقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک ،نئی صدی کے سائبر کھلونوںاور سماج ومعاشرے کے سرد رویوں کے باوجود ادب کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور پورے وثوق کے ساتھ کہوں گا کہ کل بھی زندہ رہے گا۔فنون لطیفہ کی قسموں میں ادب ہی وہ ایک قسم ہے جو خاموشی سے سیاسی و لسانی ،سماجی و معاشرتی ،ثقافتی وتہذیبی ہرسطح پر انقلاب برپا کرتا ہے اسی لیے پچھلی صدیاں بھی ادب کے نام تھیں اور آنے والی صدیوں میں بھی اس کے کرشمے خاموشی کے ساتھ جاری رہیں گے ،لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عہد حاضر میں فکشن کی تنقید مفقود ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اردو ادب میں فکشن کی تنقید کی وہ روایت محفوظ نہیں رہی جس کی وہ طلبگار یا متقاضی رہی ہے۔

آگے میں اُن منتخب ناولوں کا طائرانہ جائزہ لینے سے قبل باور کرانا چاہتا ہوں کہ دنیائے ادب کی قندیلیں ہمیشہ تخلیق کاروں اور ان کی تخلیقات کے سبب ہی روشن رہی ہیں۔دنیا کی کسی بھی زبان و ادب کو آفاقی حیثیت دلانے میں ان کی کوششیں ایک انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اسی ضمن میںچند باتیں ان کے تعلق سے پیش کروںگا تاکہ قاری کو ناول میں نئے گوشے اور سمت کاپتہ چل سکے ساتھ ہی قاری کو ایک تازگی کا احساس بھی ہو جہاںاسے اپنے ماحول سے اکتائے ہوئے نا پختہ ذہنوں کو آزادی کی راہیں بھی نظر آئیں،تب وہ ناول نئے فلسفوں اور دنیا کے انکشافات سے آشنا ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ہر ناول دراصل زندگی کی بنیاد سے کہیں نہ کہیںمربوط ہوتا ہے، اسی طرح جس طرح ایک درخت کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ پیوست ہوتی ہیں۔اگر ناول نگار کوکسی معاشرے کا تجربہ و مشاہدہ نہیں ہے اوروہ کسی معاشرے کے پس منظر کا سہارا لیے بغیر کسی اجنبی ملک، معاشرہ اور زبان سے کچھ ایسے خیالات کو شامل کرے جواس کے اپنے معاشرے کی آب وہواکے لیے اجنبی ہو تو ایسے خیالات بظاہرتو انقلابی، روشن، خیال انگیزاور دلچسپ محسوس ہو سکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت گلدان میں رکھے ہوئے کسی اجنبی پھول کی شاخ سے مختلف نہیں ہوگی اور ایسی تحریر بھی دانشمندی سے عاری ہی ہو گی کیونکہ دانشوری ایک ایسی چیز کا نام ہے جس کاچراغ حقیقت کے تیل سے ہی روشن ہوتا ہے۔حقیقی دنیااورزندگی سے کٹی ہوئی دانشوری کا کوئی تصورہی نہیں کیا جا سکتاکیوںکہ یہ ایک عملی صفت ہے جو ایک عمدہ ولازوال تخلیق کاخاصہ ہوتی ہے۔ میری خام صلاحیت میں اصل ناول وہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد قاری ایک جدید نظریہ ،شعور،احساس،فہم وادراک لے کر اٹھے اور ساتھ ہی معاشرے میںپھیلی بے چینیوں، بدامنیوں،بے ضابطگی ، نااتفاقی اور سماجی خلفشار پہ قابو پانے کے لیے کوشاں رہے ۔میں ان ناولوں سے بھی گریز کرنا چاہتا ہوںجوقاری کو صرف تفریح طبع کا سامان فراہم کرکے سلادیتے ہیںاور انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے بجائے اس سے قید کا کام لیتے ہیں۔

ناول چونکہ فردوسماج کی خارجی وباطنی زندگی کی صداقتوں کے اظہار کا فن ہے اس لیے یہاں زبان کی تخلیق کی ذمہ داری فنکار پر عائد نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے ذہنی خاکے میں صداقت کا رنگ بھرنے اور کردار کی انفرادیت کوقائم رکھنے کے لیے اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ فطری اور مانوس زبان استعمال کرے ۔ جہاںوہ ایسا نہیں کرتا اور خیال میںغیرمانوس اور انوکھی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے یا کردار کے طبقاتی رشتوں اور ماحول میں مطابقت پیدا نہیں کر پاتاوہاں وہ اپنے فن سے بغاوت کا مجرم قرار پاتاہے لیکن اس کے یہ معنٰی ہرگز نہیں کہ ناول نگار کاکام دیگر فنکاروں کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہے ۔ اسے زمانے کی تبدیلیوں اور حالات حاضرہ پر کچھ زیادہ ہی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ وہ صرف دل کی دنیا ہی آباد نہیں کرتا بلکہ اسے اپنے ارد گرد کی دنیا کو بھی آباد رکھنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔اسی تناظر میں ذیل میںپیش کیے گئے چند نمائندہ ناولوں کے اجمالی جائزے کو دیکھا جا سکتاہے۔

’’بستی‘‘ ناول انتظار حسین کا ایک بہتر ناول شمار کیا جاتا ہے جو ۱۹۸۰ء میں منصہ شہود پر آیا۔یہ ناول ۲۲۴صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا انتساب حسن عسکری کے نام ہے۔اس میں ناول نگار نے تہذیبی وسماجی اور سیاسی ومعاشی پیچیدگیوں (Issues)کو ایک برقی رو کی صورت کہانی کے تاروپود میں برتاہے اور پورے معاشرے کے اخلاقی نظام اور معاشرتی رویوں کے آگے سوالیہ نشان لگایا ہے اور جنگوں کے اثرات اور شکست خوردہ افراد اور معاشروں کی بدحالیوں کوشامل کیا ہے،یہ سب چیزیں مل کراس ناول کو ایک بڑا تخلیقی تجربہ بناتی ہیں۔ اس کا موضوع تقسیم ہندکے باعث ہونے والی ہجرت ہ۔اس کا مرکزی کردار ذاکر ہے جس پر ناول نگار کے ذاتی اثر کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ صابرہ کا کردار بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے ۔اس کے دیگر کرداروں میں واسنتی،بھگت جی،حکیم صاحب، ناصر علی، ڈاکٹرجوشی، عبدل، سلامت وغیرہ ہیں ۔ناول کی قرأت سے پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی حالات پر سوالات کا ابھرناناگزیر ہوجاتا ہے۔اس میں فن کار کے فنی سفر کی بازیافت بھی نئی قوت کے ساتھ ہوئی ہے ۔بعض ناقدین اس ناول کو خود سوانحی ناول قرار دیتے ہیں ۔اس کا موضوع تو اپنی زمین سے بچھڑنے اوراپنی تہذیب وثقافت کے نابود ہونے کا کرب ہے تا ہم پاکستان کے حالات و مسائل بھی اس کا موضوع بنتے ہیں۔یہ ناول ایک یاد کا منظرنامہ ہے جو زمانوں اور تہذیبوں کی کھینچی ہوئی طنابوں کے بیچ واقع ہوتا ہے۔ایک ایسے تجربے کی بازیافت جس کی ایک سطح پر انسان کے ارضی،وجودی اور سماجی معانی متعین ہوتے ہیں اور دوسری سطح پر اس کی روح کا بنیادی مطالبہ ہمارے سامنے آتا ہے ۔           

’’خوشیوں کا باغ‘‘ اردو ناول کی دنیا میں ایک اہم اضافہ ہے جس کے خالق انور سجاد نے ۱۹۸۱ء میں شائع کیا۔چوں کہ ناول نگار خود پاکستانی ہے اسی لیے اس میں پاکستان کی جدید شہری زندگی کے تضادات کو موضوع کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار ’میں‘ہے جو تیسری دنیا کے ایسے ملک کا شہری ہے جہاں مذہب کے نام پر ریاستی تشدد اور لوٹ کھسوٹ کا بول بالا ہے،ایسے بحرانی نظام میں اس کی حیثیت ایک خاموش اور مجبور تماشائی کی سی ہے جو جبر وستم کے ہاتھوں زخمی ہو چکا ہے،جس کی وجہ سے وہ بھی احتجاجی نعرہ بلند کر سکتا ہے۔’میں‘جس سماج و معاشرے میں جی رہا ہے وہ تہذیبی اعتبار سے انتہائی د ہشت زدہ اور شکست خوردہ سماج ہے جہاں سماجی گماشتے اپنی فوجی وصنعتی طاقت کے ذریعے پورے معاشرے کو خوف و لالچ کے تحت بد عنوانی اور بے عملی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ دراصل یہ ناول موضوعاتی اعتبار سے جس معاشرے کی تہذیبی شکستگی کو ظاہر کرتا ہے،وہ ایک ایسا سماج ہے جہاں لوٹ کھسوٹ،حرص وہوس اور بے ایمانی کا دور دورہ ہےاور اس معاشرے کے افراد میںوہ تمام قدریںپاما ل ہو چکی ہیں جو ایک قوم اور ملک کے تشخص کو نمایاں کرتی ہیں۔

’’کانچ کا بازی گر‘‘ شفق کا مایہ ناز ناول ہے جو۱۹۸۲ ء میں پہلی بار نکھار پبلیکیشن ،مئو ناتھ بھنجن (اترپردیش)سے شائع ہواجو آٹھ سفروں پر مشتمل تھا۔اس کی ضخامت کے سبب لوگوں نے اسے ناولٹ قرار دیا لیکن جب اس کی دوبارہ اشاعت ۲۰۱۰ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،نئی دہلی سے ہوئی تو اس میںمزید تین سفروں کا اضافہ کیا گیا۔اب یہ ناول جسے ابتدا میں ناولٹ سے تعبیر کیا گیا صرف ۱۲۸صفحات پر مشتمل تھا اضافے کے ساتھ اس کے کل صفحات ۱۸۰ہو گئے اور اس نے آٹھ کے بجائے گیارہ سفروں پر مشتمل ناولٹ کے بجائے مکمل ناول کی صورت اختیار کرلیا۔ناول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تڑپتی اورسسکتی انسانی زندگی کے المیے کو موضوع بنا یاگیا ہے جس میں مسلسل انسانی کرب کی آواز اور آہ وبکا سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم ہندکا کرب،آزادی کی راہ میں دی جانے والی قربانیاں،ایمرجنسی کے دوران پامال ہو نے والی اخلاقی اقدارکومحور میں رکھا گیا ہے۔اس کا مرکزی کردار ’میں‘، مناّ،اوربیوی ہیں جو سبھی مل کر علامتی فضا قائم کرتے ہیں، اس میں راجیش جی کا بھی کردار اہمیت کاحامل ہے۔فنکارنے اپنے اس ناول کے بیشتر کرداروں کو علامتی اور استعاراتی قالب میں ڈھالا ہے جس میں انہوں نے اپنے منفرد اسلوب کے ذریعہ کئی علامتوں اور استعاروں کے سہارے ایک روشن فہم وادراک قاری کو عطا کیا ہے جو حادثات و واقعات کی گرہیں کھولنے میں اس کی مدد کرتے ہیں ۔ اس میں اجتماعیت سے فرار،غیر محفوظیت کا احساس، ٹوٹنے بکھرنے کا المیہ،حالات کی شکست وریخت ، بھیڑ میں تنہائی کا احساس،بندھے ٹکے اصولوں سے انحراف ،علامتی و استعاراتی اسالیب بیان، لا مرکزیت،خارجی احوال سے زیادہ داخلی کوائف کا احساس،قدروںکے انہدام کے علاوہ ذات کا کرب اس ناول میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی تقسیم ہند اور ایمرجنسی کے دوران المناک داستان کی تفصیل بھی موجودہے۔

’’دشت سوس‘‘ ناول ۱۹۸۳ء میں منظر عام پر آیا۔یہ ناول تاریخی نقطۂ نظر سے ایک اہمیت کا حامل ہے جس کی ملکیت جمیلہ ہاشمی رکھتی ہیں۔فنکارہ نے اس ناول کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کا حصہ اول ’صدائے ساز ‘ہے، حصہ دوم ’نغمۂ شوق‘ہے اور حصہ سوم ’زمزمۂ موت‘ ہے۔ مصنفہ نے اس میں حسین بن منصور حلاج کی زندگی کی عکاسی کی ہے جو آٹھویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ تھے۔یہ وہی کردارہے جس کا نعرہ’اناالحق‘ہے۔اس ناول کا زمانہ عہد عباسیہ سے تعلق رکھتاہے ۔تخیل اور اپنے عمیق مطالعے سے مصنفہ نے تصوف کے گوشے میںجاکر اس ناول کی تخلیق کی ہے۔یہ ناول دراصل ایک غنائیہ المیہ ہے جس کا مرکزی کردارحسین بن منصورایک کرشمائی کردار ہے۔یہ ناول استعارہ ہے اس Dryness of soulکا جسے اول تا آخر پیش کیا گیا ہے۔محمی آتش پرست کا پوتا ہے۔ حسین کی طبیعت میں جنون والتہاب نظر آتاہے جو اسے وراثت میںملا ہے۔ ناول میں جگہ جگہ دشت سوس سے اٹھتے ہوئے زرد ، سیاہ اور سرخ ریت کے ذروں کے ان طوفانوں کا غلاف چڑھا ہوا ہے جو فضا کے اجلے پن کو متاثر کرتے ہیں۔ناول کا ایک پہلو جو سیاسی تغیرات کے رد عمل اور جذبات کی تندی وتیزی کے لیے ایک متوازن کرنے والی قوت کی حیثیت رکھتا ہے؛تجارتی قافلوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی میں نظر آتا ہے ۔یہ قافلے ہمیشہ گردش میں رہتے ہیں۔اس کا ایک پہلو توسامان اور اشیا کی فراہمی کے سلسلے میں مراکز کی تلاش اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے نئے بازاروںکی کھوج اور دوسرے اس میل جول اورباہمی رد عمل کے مواقع فراہم کرنا جو مختلف النوع تہذیب و تمدن رکھنے والے گروہوں اور طبقوں کے درمیان ہوتے رہتا ہے۔اس میں کئی کردار ہیں جو اپنی اپنی شناخت قاری کے دل میں ثبت کرتے ہیں جن میں حامد بن عباس،اغول،اقطع اور اس کی بیٹی زینب ،قاضی ابو عمراور قاضی ابوالحسین جیسے سادہ لوح بندے ہیں جنہیں اس بات پر حیرت تھی کہ حامد کیوںحسین بن منصور کی جان تلف کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ جاننادلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ برطانوی شاعر ولیم بلیک جو ایک اعلیٰ درجے کا مصور بھی تھا،اپنے اسطوری شاعرانہ نظام میں ایک کردار وضع کیا ہے اور اسے فن مصوری کے ذریعے منقش بھی کیا ہے اور اسے اس نے Nebuch adnezzerکے نام سے موسوم کیا ہے اور یہ کردارمتوحش بہیمیت کی ایک خیرہ کن علامت ہے۔

’’زمین‘‘  خدیجہ مستور کاناول ہے جو ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا۔اس میں ایسے کرداروں کو پیش کیا گیا ہے جن کا تقسیم ملک کے بعد دوسرے ملک جاکر اپنی پرانی شناخت کومنسوخ کرکے حالیہ منظرنامے میں پیوست ہو جانا ہی شوق بن جاتا ہے یا مجبوری ،اس کو مصنفہ نے بڑی فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ساجدہ ؔہے جو آنگن کی عالیہ ؔسے حد درجہ مطابقت رکھتا ہے ۔اس میں مصنفہ نے دکھایا ہے کہ جب انسان اپنے دستورالعمل کو فراموش کر دیتا ہے تو اس میں خیرو شر کی تمیز تک باقی نہیں رہتی جس کے پس منظر میں برائیوںاور بد کاریوںکے ساتھ منفی رویوں کی طرف شدت سے اس کارجحان فروغ پانے لگتا ہے۔ان کا نظریہ اخلاقی اقدار کو پامال کرکے مادیت پسند بن جاتا ہے۔ یہ ناول انسانوں کے منفی رویوں کی ترجمانی کرتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی تہذیبی اقدار کوفراموش کر دیتے ہیںجس سے ان کی شناخت جاتی رہتی ہے جو انہیں زمین سے جوڑے رہتی ہے جو ان کے آباواجداد کی زمین کہلاتی تھی۔یہاں زمین کا استعمال علامت کے طور پر ہوا ہے۔ ناول کے مرکز میں مہاجر کیمپ کی زندگی اور اس سے وابستہ مسائل کوا ہمیت دی گئی ہے۔اگر غور کیا جائے تو’زمین‘ مصنفہ کے ہی ناول ’آنگن‘ کی توسیع معلوم ہوتا ہے۔ناول کا آغاز لاہور کے والٹن کیمپ سے ہوتا ہے جہاں ساجدہ اپنے باپ رمضان کے ساتھ پناہ گزیں ہے۔یہاں ان کی ملاقات ناظم سے ہوتی ہے جو محکمۂ بحالیات میں ملازم ہے۔کیمپ میںباپ کی موت ہو جانے کے بعد ساجدہ بے یارومددگار ہو جاتی ہے اور ناظم اس کو اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے۔ساجدہ کا باپ جو زندگی بھر کپڑے کی دکان پر منشی گیری کرتا رہا تھا،لالچ اور لوٹ کھسوٹ کے اس ماحول میں اپنی زندگی بھر کی ایمانداری اور خودداری کو گنوابیٹھتا ہے اور ناظم کے سامنے اپنےپانچ کمروں کے مکان،دو منشیوں والی کپڑے کی دکان اور شاندار ماضی کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے۔ناظم اپنی نیک نیتی کی بنا پر اس بوڑھے کی باتوں کا اعتبار کر لیتا ہے۔ ناول کے مطالعے کے پیش نظر تقسیم ہنداور قیام پاکستان کے باعث جو حالات سامنے آتے ہیں انھیں خدیجہ نے بڑے وثوق کے ساتھ عیاں کیا ہے۔پاکستانی معاشرہ ایک دردو اندوہ زدہ مجسمہ ہے جس کا اظہار موصوفہ نے بے باکی سے کیا ہے۔

’’خالد بن ولید‘‘ قاضی عبدالستار کا تاریخی ناول ہے جو ۱۹۸۸ء میں ظہور پذیر ہوا۔اس کا مرکزی کردار خالد ؔبن ولید ایک فوجی جنرل ہے۔ مصنف نے اس ناول میں بہت سی عالی مرتبت کرداروں کی تصویریں پیش کی ہیں ، ان میں قیصر روم بھی ہے اور کسریٰ وشام بھی ۔ خود خالد بن ولید کی شخصیت بھی نہایت اعلیٰ وارقع ہے۔ مصنف نے کسی بھی کردارکی عظمت کو ظاہر کرنے میںعصبیت سے کام نہیں لیاہے۔ ان سب کے باوجود امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی شخصیت کا جو نقشہ کھینچا ہے اور اس کے لیے جو پیرایۂ اظہار منتخب کیا ہے وہ لاثانی اہمیت کا حامل ہے۔ ناول کے ہیروکے زیادہ تر مکالمے بادشاہوں، سپہ سالاروں اور فوج کے اہم عہدیداروں کے ساتھ ہوتے ہیں اس لیے ناول میں انہوں نے موضوع کے اعتبار سے پر شکوہ اندا زبیان اختیار کیا ہے۔مصنف نے اس پورے ناول میں تشبیہوں، استعاروں اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔خالد بن ولید جیسی شخصیت پر روشنی ڈالنے کے لیے پر شکوہ الفاظ کی ضرورت تھی ۔ اس ناول کا بڑا حصہ جنگ وجدل پر مبنی ہے۔ جنگ کے مفصل بیان کی وجہ سے شخصیتوں کی پیشکش میں بھی جنگی حالات کے بیان کا عنصر غالب ہے۔ہرقل کی جو بھی تصویر ناول میں پیش کی گئی ہے وہ ناکامی کی خبروں کے ساتھ ہے۔ ہرقل کی ایسی تصویریں اس کے شاہی جلال کے اظہار میں رکاوٹیں بنتی ہیں۔ ناول نگارکے الفاظ کا ذخیرہ انتہائی وسیع ہے، وہ الفاظ پر اس قدر قدرت رکھتا ہے کہ اسے مختلف پیرائے میں استعمال کر لیتا ہے ۔ اس نے ہرقل اعظم کے حشم جاہ وجلال اور بادشاہ کی شان وشوکت کو قائم رکھا ہے ۔یہ قاضی صاحب کا ہی کمال ہے کہ چند الفاظ کی وجہ سے کردار کی شخصیت پڑھنے والے قاری پر واضح کر دیتے ہیں۔

’’دوگززمین‘‘ کے خالق عبدالصمد ہیں ۔یہ ناول ۱۹۸۹ء میں منظر عام پر آیا۔ اگرمیںیہ کہوںکہ اسی ناول نے موصوف کو شہرت دوام بخشی ہے تو بیجانہ ہوگا۔اس ناول میں تقسیم کے بعد سے مسلمانوں میں ہونے والی بحرانی کیفیت اور منتشرزندگیوں کی صرف تصویر کشی ہی نہیں کی ہے بلکہ اس میں وہ احتجاج بھی موجود ہے جو اپنی قومیت ، حب الوطنی اور شناخت کے متعلق سوال کی ابھرتی داستان بھی ہے۔اس میں بہاری مسلمانوں کے وقت سے جوجھتے ہوئے ہجرت کا کرب ان تمام مہاجرین کا کرب بن جاتا ہے جو ایسے حالات سے گزرتے ہوئے ایک زمین سے دوسری زمین میں منتقل ہو ئے تھے۔اس ناول کی تعمیر بہار کے ایک گائوںکو محور میں رکھ کرکی گئی ہے جس میں اصغر حسین اور اختر حسین دو بھائیوں کی نظریاتی کشمکش کو بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ایک بھائی کانگریسی نظریات کا حامل ہے تو دوسرا مسلم لیگی ہے۔ دونوںاپنی اپنی پارٹیوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ان دو نظریات کے سبب تنائو کا پیدا ہونا لازمی بن جاتا ہے، اختلافات بھی جنم لیتے ہیں۔نظریات کے تصادم کو لے کر دونوں میں کافی اختلاف ہے۔دریں اثنا ملک آزاد ہوتا ہے اور اصغر حسین اپنے نظریے کے مطابق پاکستان چلا جاتاہے جبکہ اختر حسین اپنے آبا واجدادکے ہی گائوں میں رہنا پسند کرتا ہے لیکن یہاں رہنے والے مسلمان جن حالات سے دوچار ہوتے ہیں ان سے تنگ آکروہ بھی اپنا گائوں چھوڑکر مشرقی پاکستان چلا جاتا ہے۔اختر حسین کے گھرانے کی بزرگ بی بی صاحبہ نے اپنے کنبے کو تین خطوں میں تقسیم ہوتے اور بارہاآباد ہوتے دیکھا تھا۔انہوں نے دیکھا تھاکہ ان کا ایک بیٹاکراچی جا کر ہوس زرگری میں گرفتار ہو کرتمام رشتے وناطے توڑ بیٹھا تھا تو دوسرا ناآسودہ ہونے کی بنا پرپست زندگی بسر کر رہا تھا۔انہوں نے دیکھا کہ حامد راتوں رات فرار ہوکر ڈھاکہ جابسا تھا اور ۱۹۶۵ء میں جاسوسی کے الزام میں حویلی کی تلاشی لی گئی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ محکمۂ کسٹوڈین نے مسلمانوں کی بہت سی املاک اور زمینیں ضبط کر لی تھیں۔ زمین کی ہجرت نہ ماضی کو فراموش کر سکتی ہے اور نہ نئی زمین اسے قبول کرتی ہے، چنانچہ بنگلہ دیش کاقیام بھی ان کے بہاری ہونے کونہیں بھول پاتا اور وہ ایک طنز بن جاتا ہے۔

’’مکان‘‘ پیغام آفاقی کا شہرئہ آفاق ناول ہے جسے۱۹۸۹ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی نے شائع کیا۔یہ ناول ۴۰۰صفحات اور۳۲ابواب پر مشتمل ہے جوعمدہ ناولوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔یہ عصر حاضر کے حالات کابیباک ترجمان ہے تبھی تو اس کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی ہوئے۔اس میں مصنف نے بالواسطہ کردارنگاری کی عملی صورت پیش کی ہے ۔اس ناول میں مصنف نے دکھایا ہے کہ نیرا ؔایک یتیم لڑکی ہے جو میڈیکل سائنس کی طالبہ ہے، اس کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے ،وہ اپنی بیمار ماں کے ساتھ اپنے مکان میں رہتی ہے ۔اس کے مکان میں بطور کرایہ دار کمارؔ نامی ایک تاجر شخص رہتا ہے جو نیرا کو اکیلا اور کمزور جان کر اس کے مکان کو ہتھیانا چاہتا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ کمار کی اس سازش میں چند محکمۂ پولیس کے چند جوان بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ کمار نے رشوت دے کر ان کے ضمیر کا سودا کرلیا ہے۔ اب وہ پوری طرح سے کمار کی طرف داری میں سر گرداں ہیں۔نیرا کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں یہاں تک کہ محلے والے بھی تماشائی بنے ہوئے ہیںاور مزید یہ کہ کمار کے بہکاوے میں آکر الٹا نیرا سے ہی بے تکے سوال وجواب پہ آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن نیرا پر ان سب باتو ںکا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کمار کی امید کے بر عکس اس کی تمام سازشوں اور یورش کا بلند حوصلے اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ ناول عہد حاضر کی عکاسی تو کرتا ہی ہے ساتھ ہی نظام عدلیہ پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے کہ جس کا قیام کمزور اور معصوم لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے کیا گیا ہے اگر وہی کرپٹ ہو جائے تو پھر کس سے عدل و انصاف کی توقع کی جائے گی۔آفاقی کا ایک اور ناول’’ پلیتہ‘‘ہے جو۲۰۱۱ء کی تخلیق ہے ،اس میں بھی انہوں نے ان تمام حقائق پر روشنی ڈالی ہے جوعصر حاضر کا دہکتاہواموضوع ہے۔

’’پانی‘‘ ۱۹۸۹ء کی تخلیق ہے جس کے تخلیق کار غضنفر ہیں۔ دراصل یہ ایک ناولٹ ہے۔ اس میں مصنف نے پانی کی تلاش کا مداوااور پانی کی حصولیابی کو موضوع بنایا ہے۔یہ جدید علامتی اظہار کا ناولٹ ہے جس میں ایک ایسے فرد کو موضوع بنایا گیا ہے جو تمام آسائشوں اور نعمتوں سے پرُاس دنیا میں صرف پانی جیسی شے کا طلب گار ہے جو خو فناک نہنگوں کے قبضے میں ہے۔اسی لیے دنیا کے مختلف گوشوںمیں پانی کی وجہ سے تصادم شروع ہو چکا ہے۔خود اپنے ملک کے متعدد صوبوں میں ندیوں کے پانی کے سبب برسوں سے تناعات قائم ہیں ۔کرناٹک اور تمل ناڈو،ہریانہ اور پنجاب اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ماہرین کاماننا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کی وجہ سے ہوگی ۔ اس روئے زمین پر جو پانی کا حصہ ہے اس میں سے پینے کا پانی صرف تین فیصدی ہی ہے ۔ اس لیے پینے کا پانی ہر کسی کو دستیاب نہیں ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار بے نظیر ؔاپنے جسم وجان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کے چند قطرات حاصل کرنے پر مُصرہے۔کھوئے ہوئے چشمے کی بازیافت کے لیے وہ دردر بھٹکتا پھرتا ہے۔ کبھی وہ سائنسدانوں سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور کبھی مصنوعی طریقوں سے پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے درد کا درماں کسی کے پاس نہیں ہے۔سائنسدانوں کے دارالتحقیق سے مایوس ہو کر وہ مذہب کے زیر سایہ پناہ لیتا ہے اور اپنے سارے بنیادی مسئلے کا حل فقیروں اور درویشوں کے فرمودات میں تلاش کرتا ہے لیکن یہاں اسے مزید گمراہ کیا جاتا ہے اور حقائق سے بے بہرہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ناول میں تکنیکی نیرنگیاں اور تجربات بہت ہیں ، اس لیے ان مسائل کے کئی ابعاد بھی روشن ہوجاتے ہیں ۔

غضنفر نے پانی کی تلاش اور اس کے پیچ در پیچ مسائل کو جادوئی حقیقت نگار Magical Realist) )کے انداز میں پیش کیا ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی آسمانی واقعہ بیان کیا جارہا اور کبھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آس پاس کی زندگی کے مسائل ومباحث زیر بحث ہیں ۔ دھوپ چھاؤں کی یہ تکنیک موجودہ سبق کے آغاز سے انجام تک دیکھنے کو ملے گی جس سے تجسس میں اضافہ ہو تا ہے۔ مصنف نے ’’آبیاژہ‘‘شے کی ایجاد کر کے پیاس سے نجات حاصل کرنے کا جو نسخہ سجھایا ہے ، اس کی طنزیہ جہت سے مسئلے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ بھی خوب ہے کہ لوگوں کو پانی تو نہیں دیا جائے لیکن پیاس کے بدلے ایک چاکلیٹ سے کام چلالینے کی صلاح دی جائے ۔ دوائوں اورقیمتی دوائوںکی مار سے پریشان عوام سے ہمیشہ کے لیے پانی کو الگ کر دیا جائے۔

’’چاندنی بیگم‘‘ قرۃالعین حیدر کاناول ہے جو ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا ۔ یوں تو ان کے بیشتر ناولوں میں وقت کوموضوع کے طور پربرتا گیا ہے لیکن اس ناول کی اشاعت کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مصنفہ کو دیگر موضوعات پر بھی دسترس حاصل تھی۔اس ناول میں ستر صفحات پر مبنی بہرائچ کے’ کلچر ہیرو‘ غازی میاںکے میلے کا مفصل ذکر ہے۔یہا ں قدیم عوامی اعتقادات وتوہمات کے زندہ مظاہرقدم قدم پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس ناول کا مرکزی کردارصرف چاندنی بیگم کو ماننا میرے خیال میں شاید جلدبازی ہوگی کیوں کہ اس کا قتل کر دیا جاتا ہے۔یہ کردار وقت کے ستم کی مارجھیلتا نظرآتا ہے۔اس کے بعد قنبرعلی ہمارے سامنے آتا ہے جسے مرکزی کردار تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نظر نہیںآتی ہے۔اس ناول کے موضوع کے متعلق ڈاکٹر خالد اشرف رقمطرازہیں:

’’چاندنی بیگم کا موضوع سوشلسٹ انقلابی قنبر علی کی شادی یا بیلا رانی کا شادی کے بعدمادی آسائشوںکی ہوس میں گرفتار ہو جانانہیںہے،بلکہ جاگیرداری کے خاتمے اور تقسیم ہندکے بعد کے بر صغیر میں مختلف مسلم طبقات کی زیر تغیر زندگی کی عکاسی ہے۔ ناول کے منظرنامے پر متعدد کردارابھرتے ہیں اور اپنے کردار ادا کرکے روپوش ہوجاتے ہیں ۔ قنبر علی سابق اشرافیہ کے اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جس نے سیکولرزم اور سوشلزم کے انسانی تصورات کی فضامیں تربیت حاصل کی ہے۔بائیں بازو کے نظریات کا مبلغ اور پیروکار قنبر علی اگرچہ حقیقی انقلابی ہے لیکن صدیوں سے چلی آرہی اپنی غیر عوامی روایات سے مکمل طور پر جدا نہ ہو پانے کی بنا پرخود کو De-classنہیں کر سکا ہے۔اسی لیے محلاتی ملا زمین اور مامائوں کے طبقے سے تعلق رکھنے والی بیلا اس کو حقارت آمیز نظرسے دیکھتی ہے۔‘‘(۱)

اس ناول کاشمار قرۃالعین حیدر کی آخری کاوشوں میں ہوتا ہے جس کے کرداروں میں چاندنی بیگم، قنبرعلی، بیلارنی، ریئس ابرارحسین عرف بوبی میاں،وکی میاں،پنکی ، ڈنکی وغیرہ ہیںجو اہم خصوصیت کے حامل ہیں جو ناول کی رفتار کو تقویت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’’تین بتی کے راما‘‘ علی امام نقوی نے ۱۹۹۱ء میں تخلیق کیا ۔ہر دور اپنے ساتھ کچھ مسائل اور موضوعات لاتا ہے۔ممبئی جیسے بڑے شہروں میں گھریلو کام کاج کے لیے عموماً لڑکوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں وہاںکی زبان میں’ راما‘کہا جاتا ہے اور جو لڑکیا ں اوپر کا کام کرتی ہیں ’بائی ‘کہلاتی ہیں۔ علی امام نقوی نے اپنے اس ناول میں اسی کو موضوع بنایا ہے اور ان لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل پرقلم اٹھایا ہے۔ان کے مسائل اور ان کی ذہنی سوچ ،ان کے جنسی استحصال کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کرکے اسے ناول کے قالب میں ڈھالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔یہ راما لوگ اپنے کوٹھیوں کے کام سے فارغ ہو کر روز رات کوتین بتی کے چوک پریکجا ہوتے ہیں اور اپنے دکھ درد اور خوشیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکرتے ہیں ۔ ان تین بتی کے رامائوں میں ڈرائیور پرکاشؔ ہے جو سکّوآیاسے عشق کرتا ہے ، کم عمر موہنؔ ہے جو ممبئی کے بے راہ رو اور زرپرست معاشرے کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے، ڈھونڈوہے جو ان سب کا سرپرست بنا بیٹھا ہے، مشرقی یوپی کا بھیا چیت نرائن ہے جو اس منڈلی کی شراب نوشی اور جنسی کجرویوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس ناول میں سکو کا کردار سب سے فعال ہے جو سیٹھوں کی جنسی مصاحبت کرتے کرتے جوان ہوتی ہے اور ناجائز اولادوں کو ختم کراتی رہتی ہے بدلے میں اسے مہنگے کپڑے اور پیسے ملتے ہیں اس طرح وہ ہر چیز کو پیسے کی ترازو میں تولنے لگتی ہے۔ ناول میں ممبیا کلچر کی عکاسی صاف دیکھنے کو ملتی ہے۔

’’فرات‘‘ کا شمارحسین الحق کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا ۔یہ بہت وسیع کینوس ناول ہے جو۲۹۶صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں مصنف نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نئی نسلوں میں کس طرح ذہنی، جذباتی اور اخلاقی تبدیلیاں رونماں ہوتی ہیں۔اس کامرکزی کرداروقاراحمد کی ساری زندگی مجاہدے میں گزرتی ہے۔موصوف نے اس ناول کے مرکزی کردار کے توسط سے پانچ نسلوںپر مشتمل ایک کہانی قاری کے سامنے پیش کی ہے ساتھ ہی غوروفکر کرنے کے اوقات بھی عنایت کیے ہیں۔ اس کی عبرتناک کہانی میں جہاں وقار احمدکی پشت پر اباجان اور داداحضرت کی یادیں،سامنے بیٹے بیٹی ،پوتے پوتی اور درمیان میں خود وقار احمداور ان کی ۵۷سالہ زندگی کے نشیب وفراز ہیں۔اس میں بڑے بیٹے فیصل کا دلچسپ کردار ہے جو نہ تو پوری طرح جدید بن سکااور نہ قدیم روایت سے وابستہ ہوسکا۔ دوسرا بیٹا تبریز ہے جو ذہنی ہیجان میں مبتلا ہے۔ مذہب سے بیگانہ ،گھر سے انجانہ اور خود سے اکتایا ہوانظر آتا ہے۔تیسرا کردار۳۵سالہ بیٹی شبل کا ہے جو جمہوریت، سیکولرزم اور کمیونزم کی دلدادہ ہے اور سب کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق دلاناچاہتی ہے۔ وقار احمدؔ کوحصول معاش اور معززشہری بننے کی چاہت انہیںاجازت نہیںدیتی ہے کہ اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت پر ذہن مرکوز کر سکے ۔ گزرتے اوقات کے ساتھ وہ تہذیبی ورثے کے تحفظ کے لیے متفکر نظر آتاہے۔اس فکر میں وہ بسااوقات خود سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس میں اسی تکنیک کا استعمال کیا ہے جو اکثر فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی کردار کا ہمزاداس کے مد مقابل آکر محو گفتگو ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح وقار کا ہمزاد بھی اس سے باتیں کرتا نظر آتا ہے ۔یہ تین نسلوں کی اقدار کا احوال بیان کرتا ہے جو آسان کام نہیں ہے۔اس کے متعلق انور پاشارقم طراز ہیں:

’’حسین الحق کا ’’فرات‘‘معاصر ناول میں موضوعی اعتبار سے قدرے الگ جہتیں رکھتا ہے۔یہ ناول جنریشن گیپ (Generation gap) اور بدلتی تہذیبی و معاشرتی اقدار سے پیداشدہ صورت حال کو مؤثر انداز میں لاتا ہے۔تین نسلوں کے درمیان موجودذہنی اور معاشرتی تہذیبی واخلاقی قدروں کے تصادم سے ناول کا ہیولیٰ تکمیل پاتا ہے۔زبان واسلوب میں رچائواور چاشنی سادہ بیانیہ کو تازگی عطا کرتی ہے۔‘‘ (۲)

’’ندی‘‘کا شمار شموئل احمد کے عمدہ ناولوں میں ہوتا ہے جس کا اشاعت ۱۹۹۳ء ہے۔یہ موصوف کا پہلا ناول ہے جس سے انہوں نے ناول نگاری میں اپنی شناخت قائم کی۔اس میں ناول نگارنے عورت ومرد کے باہمی رشتے کو موضوع بناکر ان کی بہو رنگی شخصیت کو بڑے ہی فن کارانہ اندازمیں برتا ہے۔اس میں مصنف نے دیو مالائی عناصر کوبھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور تاریخ کے کوچے کی سیر کرائی ہے۔میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ شموئل احمد کے اس ناول میں دیو مالائی اور تاریخی نظریات کا حسین امتزاج مضمرہے۔اس میں ناو ل نگار نے اپنی تخلیقی قوت کے بوتے بہترین کردار نگاری کا بھی مظاہرہ کیا ہے ۔مصنف نے کرداروں کی افراط سے گریز کرتے ہوئے محض تین کرداروں ’لڑکی‘، ’لڑکا‘ اور ’لڑکی کے باپ‘ کو کردار کے طور پر شامل کرکے اپنی فنی مہارت کا حسن اسلوبی سے استعمال کیا ہے۔یہ ناول مردوعورت کی جنسی کشش کا بھی حامل ہے جس میں فنکار نے ان کے رشتوںکی ضرورت اور ان کی اہمیت پر بھی قاری کا ذہن مرکوزکرایا ہے اور جنس سے متعلق رسمی اخلاق ومفروضات کی تردید کی ہے۔ناول نگار نے عورت کو اس ناول کا موضوع بنایا اور اس کے سترنگی روپ کے اسرارسے پردہ اٹھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ساتھ ہی عورت اور مرد کے رشتوں ، سماجی ضروریات اور جنسی کشش وتعلق کو ماضی تا حال اس کی اہمیت کو بیان کیاہے۔ ناول نگار نے ایک عورت کی نفسیات اور اس کے جذبات کی عکاسی فنی مہارت کے ساتھ کی ہے ۔اس میں انہوں نے بتایاہے کہ یہ ہرگز عورت قبول نہیں کر سکتی کہ اس کا شوہر اس کے جذبات کو مجروح کرکے صرف اپنی جنسی ضرورت کی چیز سمجھے ۔اس ناول میں مصنف نے دکھایا ہے کہ اس کی ہیروئن نے اپنے پاپا سے باغبانی، ادب ، موسیقی اور دیگر علوم سیکھے ہیں اور یو جی سی اسکالر ہے ساتھ ہی موت کے پیرا سائیکلوجی پر ریسرچ کرتی ہے ۔ ایک شادی کے موقع پر اس کی ملاقات لڑکے سے ہوتی ہے تبھی سے ملاقات کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔ اس ہیروئن کے متعلق انیس رفیع رقمطراز ہیں :

’’لڑکی ندی کی طرح آزادی ، بہائو ، بے رخنہ زندگی چاہتی ہے مگر اس کا شوہر اصولوں اور ضابطوں کی آڑ میں پل باندھے (Dam) کی طرح اس پر روک لگاتا ہے۔ اس روک سے وہ دھیرے دھیرے نفرت کرنے لگتی ہے مگر اس کی نفرت اسے انحراف پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ ایک ابدی کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔‘‘(۳)

 ’’ فائر ایریا‘‘ ناول پہلے پہل ۱۹۹۴ ء میں گدی محلہ، جھریا سے شائع ہوا ۔معاشی تنگدستی کی وجہ سے اس کا مسودہ تقریباـــــ َآٹھ سال تک یوں ہی پڑا رہا۔دو سال کے وقفے کے بعد۱۹۹۶ ء میں اس کادوسرا ایڈیشن معیار پبلی کیشنز،نئی دہلی کے زیر اہتمام منظرعام پر آیااور اسی سال اس کی انفرادیت ومنظرکشی کو دیکھتے ہوئے اسے معروف ادبی اعزاز’’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘‘سے بھی سرفراز کیا گیا۔یہ ناول تین ابواب اور۳۶۷صفحات پر مشتمل ہے۔پہلا باب آزادی کے پہلے یعنی انگریزوں کی عملداری کا دور ہے جو ۱۲۷صفحات پر محیط ہے۔اس باب میںرحمت میاں ؔکی موت اورسہدیو ؔکی زندگی میں شامل ہونے والی مشکلات کو ظاہر کیا گیا ہے۔دوسرا دورجب انگریزوں کی اجار ہ داری باقی نہ رہی چونکہ وہ حکومت کرنے کے گر سے واقف تھے اس لیے اب بھی ان کی چند کوئلریوں پرقبضہ برقرار تھا۔اس باب میں ناول کا ہیرو سہدؔیوتمام حالات و حادثات کا مقابلہ کرتے ہوئے مایوس و ناامید ہو کر ٹوٹ جاتا ہے۔ ناول نگار نے اس کی نفسیات کی عکاسی نہایت فنکارانہ چابکدستی سے کی ہے کہ قاری کے دلوںمیںہیرو کے تئیںہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے۔تیسرا دور وہ دور ہے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ تمام کوئلری کو قومیا (Nationalised)لیا جاتا ہے اور اب اپنے ہی لوگوں کا کس قدر استحصال کیا جاتا ہے اس کو بہت ہی قریب سے پیش کیا ہے ۔یہ ایک علاقائی یا آنچلک ناول ہے۔بظاہر اس کا کینوس محدود ہے مگر اثرخیزی کے اعتبار سے یہ یقیناً لا محدود ہے ۔

یہ ناول الیاس احمد گدی کا لاثانی ناول ہے جو ضمنی اور ذیلی تہذیبوں اور نچلے پسماندہ دلت طبقے کے مسائل کی تہوں اور طرفوں کو انہی کی زبانی کھول کر بیان کرتاہے۔ اس میں بہار کے کوئلہ(اب جھارکھنڈ)کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل ، ٹھیکیداروں اور سیاست دانوں کی زور زبردستی اور استحصالی رویوں کو نہایت غیر جانبدارانہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ وقت بدلا، زندگی اور زمانہ کے ساتھ جینے کے طور طریقے بھی بدلے لیکن مزدوروں پر مالکوں کے مظالم آج بھی بدستور جاری ہیں ۔ مابعد جدیددور میں Coal fieldکا یہ علاقہ انسانی المناکیوں اور نارسائیوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے:

’’یہاں کول فیلڈمیں دوہی فیکٹر کام کرتے ہیں ، ایک پیسہ اور دوسراطاقت ، کچھ خاص لوگوں کو پیسہ دے کر خرید لیا جاتا ہے اور باقی کو طاقت سے دبا دیا جاتا ہے۔‘‘(۴)

یہ ناول مزدور اور سرمایہ دارکی باہمی کشمکش کے موضوع کو بہت ہی شدومدکے ساتھ اجاگر کرتا ہے۔ اس کے کینوس میں ایک طرف سرمایہ دار اس کے استحصالی نظام سے جڑے ہوئے ٹھیکیدار ، دلال اور یونین لیڈر ہیں تو دوسری جانب ظلم واستحصال کا شکار مزدور طبقہ ہے ۔ کول فیلڈ سے تعلق رکھنے والے ان دو طبقوں کی درمیانی کشمکش کوپیش کرنے میں ناول نگار نے کول فیلڈسے متعلق اپنے ذاتی مشاہدے کو بڑی کامیابی سے ناول کے کینوس پر بکھیرا ہے۔ ناول میں طبقاتی کشمکش کی لو بہت تیز ہے مگر یہ لو اعلیٰ طبقے کی طرف سے روشن ہے ۔ سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقاتی مفاد کو پورا کرنے کے لیے مختلف حربے سے کام لیتا ہے جبکہ ادنیٰ یعنی مزدورطبقہ خاموشی سے سب کچھ سہتا ہے۔ وہ کسی طرح احتجاج نہیں کرتا۔ ناول میں کہیں بھی مزدوروں کی جانب سے بلند ہونے والی احتجاج کی صدا سنائی نہیں دیتی۔ وہ تو بس خاموشی سے سب کچھ برداشت کئے جاتے ہیں۔ وہ دیکھتے سب کچھ ہیں مگر بولتے کچھ بھی نہیں ۔ گویا ان کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں تو ہیں لیکن بولنے کے لیے زبان نہیں۔ صدیوں سے نسل در نسل کالا سونا نکال رہے مزدور یوںہی خاموش نہیں ہیں بلکہ مالکوں نے دہشت کی ایک ایسی فضا کوئلری میںقائم کردی ہے کہ کسی کو زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ناول میں مارکسی نقطۂ نظر کا شدید احساس ہوتا ہے ۔ ناول نگار نے صاف طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مزدور طبقے کی خستہ حالی خدا کے حکم سے نہیں بلکہ مالک اور Management کی سوچی سبھی شاطرانہ منصوبوں کے سبب ہے تاکہ سرمایہ دار مزدوروں کے استحصال سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرتا رہے۔ گویا سرمایہ دارانہ استحصالی نظام نے انہیں نیچے گرایا ہے۔ مجمدارؔجو کہ ناول میں مارکسی نظریے کا حامل کردار ہے وہ مزدوروں کو Educatedکر کے ان کے اوپر ہونے والے ظلم واستحصال اور نا انصافی کے خاتمے کےلیے کوشاں ہے۔

 ناول کے آخر میں تین میل لمبے جلوس کا نکلنا اور خون کا بدلہ خون سے لینے کی مانگ کرنامظلوم طبقے کی بیدار طبقاتی شعور کا ترجمان ہے جو کہ طبقاتی کشمکش کی شرط اولین ہے۔ اس طرح ناول نگاربڑے ہی حقیقی انداز میں مجبورومظلوم مزدورطبقے کے طبقاتی شعور کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو ناول کوعظیم فن پارہ بنا دیتا ہے۔

’’آگے سمندر ہے‘‘ انتظار حسین کی تخلیق ہے جسے انہوں نے ۱۹۹۵ء میں شائع کیا۔اس ناول کے زمانی ومکانی دو نقطے مرا دلیے جا سکتے ہیں۔نئی مملکت پاکستان میں کراچی کی جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت اور ماضی قریب میں متصور ویاس اور اس کے اطراف وجوانب جن سے شعوری طور پر اور بظاہر جواد میاں کا رشتہ یکسر منقطع ہو چکا ہے لیکن یہ ان کی سائکی سے چمٹا ہوا ہے۔ ناول کا عمل انہی دو نقطوں کے درمیان گھومتا نظر آتا ہے۔ ایک حال کا منطقہ ہے تو دوسرا ماضی کا،جیسا کہ انسانی تجربے میں اکثر وقوع پذیر ہوتا ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار جواد میاں کے ذہنی مدرکات ناول میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔دراصل یہ ناول یادآوری یعنیReminiscing کے فن کا ایک شاہکار معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف یہ دلکشی کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اپنی موجودگی کا بااصرار احساس دلاتا ہے۔ دوسری طرف جنگل اور باغات،درختوں کے جھنڈاورکتراتی ،بل کھاتی پگڈنڈیاں، چرند پرند، مندر اور دھرم شالااور تہہ بہ تہہ اور گھنے نباتات کے وہ ٹکڑے ہیں جو ذہنی غذافراہم کرتے ہیں اور آپس میں ایک نامعلوم ربط باہمی رکھتے ہیں ۔

’’نمک‘‘ اقبال مجید کا دوسراناول ہے جو۱۹۹۸ء میں نیا سفرپبلی کیشن،الہٰ آبادسے چھپا۔یہ ایک علامتی ناول ہے اور یہ علامتیںنفس ناول میں کا فی گہرائی تک پیوست ہیں۔اس کی علامتوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی پہلی بنیادی علامت زہرہ خانم عرف محبوب جان اترولہ والی اور دارالاستکبارہے۔ دوسری علامت استم اور سم سم ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی اہم علامتوں میں نمک اور وردی وغیرہ ہیں۔ دارالاستکبارنام کی حویلی میں ۹۲سالہ ایک بوڑھی عورت زہرہ خانم عرف محبوب جان اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہے۔زہرہ خانم کااپناایک شاندارماضی رہاہے۔وہ امرا روسا کی حویلیوں میں رقص وموسیقی کے ریکارڈقائم کرچکی ہے، شہرت اور دولت کما چکی ہے۔قدیم دور کی عیش پرستانہ تہذیب کی ایک کامیاب نمائندہ ہے چنانچہ شہرت نمائی اور دولت کمائی کی تمام منزلیں پار کر کے اور ایک جاندار وشاندار ماضی گزارکراور بڑے بڑے رئیسوں ، دو لت مندوںکو اپنے اشاروں پر نچا کر اب چاہتی ہے کہ اس خاندان کے لوگ یعنی بیٹے ، بہو، پوتے پوتی، نواسے نواسی سب اس کے اشارے پر چلیں جوممکن نہیں۔ ناول میں تبدیل ہوتے وقت وحالات کے پس منظر میں معاشرے میں نامساعداور غیر متوازن حالت، قدیم اقدار وروایات سے انحراف ، سماجی ،معاشی اور تہذیبی سطح پر بنتے ہوئے نئے اصولوں کا پرانے طور طریقوں سے ٹکرائو کے علاوہ سوسائٹی کے تضاد ات ، تہذیبی ، معاشی اور سیاسی طور پر پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل اور صارفی دنیا کا تہذیب وثقافت پر بڑھتا ہوا اثرو رسوخ وغیرہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ایک علامتی ناول ہے اور یہ علامتیں نفس ناول میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں۔

’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘کوثر مظہری کا اکلوتا ناول ہے جو ۱۸۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول ۱۹۹۹ء میں اشاعت کی منزل سے ہمکنار ہوا جس کا دوسراایڈیشن بیس سال بعد منظر عام پر آیا۔ یہ ناول بظاہر تو بہار کے ایک شہرسیتا مڑھی میں رونما ہونے والے ہندو مسلم فساد کو عیاں کرتا ہے لیکن باطن میں اس کرئہ ارض پر اکثریت کے ہاتھوں ہو رہے اقلیت پر ظلم و ستم کو اپنے احاطۂ تحریر میں لیتا ہے۔مصنف کی قوت مشاہدہ تیز ہے جس میں اس نے اپنی زبان وبیان کا بر جستہ استعمال کرکے اپنے ملک کے موجودہ حالات کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔

ناول کا مقدمہ معروف فکشن نگار ڈاکٹر خالد جاوید نے لکھا ہے جس میں وہ ایک جگہ رقمطراز ہیں:

’’ کوثر مظہری کا ناول ’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘ایک ایسا ہی جہاں تو ہے۔ بظاہر اوپری سطح سے دیکھنے اور پڑھنے میں ہمارا دیکھا ہواجہان ہے، ہماری روز مرہ کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے جو ہماری حسیت میں اضافہ کرتی ہے اور وجود کائنات کی پوشیدہ جہات کو اس خوبی کے ساتھ روشن کردیتی ہے کہ ناول پڑھتے وقت ہمیںاس کا علم نہیں ہوتا ۔ یہ بیانیہ خاموش مگر تیز رواںبلیڈ ہے۔ یہ ہمیں بعد میں پتہ چلتا ہے، جب ہم غور سے آئینہ دیکھتے ہیں ہمارے چہرے پر جگہ جگہ خون چھلک آیا ہے۔‘‘(۵)

 ناول کے مطالعے سے مصنف کی فکری، بصری اور تخلیقی صلاحیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ناول کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ساتھ ہی عصر حاضر میں رونما تعصب پرستی ، سفاکیت اور فرقہ وارانہ تشدداور انتشار کو ختم کر کے قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور امن وآشتی کا پیغام دیتا ہے اور ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مذکورہ بالا ناولوں کے علاوہ بانو قدسیہ کا ’’راجہ گدھ‘‘،حیات اللہ انصاری کا ’’گھروندا‘‘، ’’صلاح الدین پرویز کا ’’نمرتا‘‘، جوگندر پال کا ’’نادید‘‘، مظہر الزماں خاںکا ’’آخری داستان گو‘‘وغیرہ ایسے ہی ناول ہیں جن پر بھرپور بحث و تمحیص کی محفلیں منعقد کی جا چکی ہیں جو اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام ناول۰ ۱۹۸ء کے بعد اور ۲۰۰۰ء کے پہلے کی پیدوار ہیں جو موضوعات، اسلوب، منظر نگاری اور زبان و بیان کے اعتبار سے اردو فکشن میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

ناول ادب کی ایک مقبول عام صنف ہے۔اردو ادب میں اس کی تاریخ تقریباً ڈیڑھ سوسال زیادہ عرصے کو محیط ہے۔موجودہ دور میں ناول وافر مقدار میں نہ سہی لیکن کسی طور کم بھی نہیں لکھے گئے ہیں ۔ان میں موضوعات کا تنوع بھی ہے،تکنیک کے تجربے بھی اور مختلف النوع زندگی حالات وواقعات کا بیان بھی ۔عہد حاضر کے ناولوں میں کوئی ایسا کردار سامنے نہیں آیا جسے بے حد اہم اور مؤثرکرداروں کی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔وجہ اس کی شایدیہ ہو کہ ہمارے عہد میں تخلیق کیے گئے ناول کے کرداروں سے زیادہ روشن ان کی تہذیبیں ،ان کے ماحول، طبقے، علاقے، پیشے اور عہد ہیں یا یہ بھی کہ ان ناولوں کی کہانیوں کے تاثر اور ان کی فضاکے سحر نے اپنے کرداروں کی ذاتی شناخت کو بہت زیادہ ابھرنے نہیں دیا،تا ہم نئے ناولوں میں کئی ایسے کردار ہیں جو سماجی اور تہذیبی حوالوں سے اپنی اہمیت اور ذاتی شناخت کے نقش قاری کے ذہن ودل میںکامیابی سے قائم کرتے ہیں۔ناول عہد جدید کی ایسی تخلیق ہے جس میں اظہار کے جتنے زیادہ امکانات ہیں نثری ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں ہیں۔ناول جز میں کل اور کل میں جز کا منظرنامہ پیش کرنے کا عمل ہے۔ ناول چونکہ فردو سماج کی خارجی وباطنی زندگی کے اظہار کا فن ہے اس لیے یہاں زبان کی تخلیق کی ذمہ داری فن کار پر عائد نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے خاکہ میں صداقت کا رنگ بھرنے اور کردار کی انفرادیت کو قائم رکھنے کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ وہ فطری اور مانوس زبان استعمال کرے،جہاں وہ ایسا نہیں کرتا اور خیالی،غیر مانوس اور انوکھی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے یا کردار کے طبقاتی رشتوںمیں مطابقت پیدا نہیں کر پاتا وہاں وہ اپنے فن سے انحراف کامرتکب قرار پاتا ہے،لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ناول نگار کا کام دیگر فن کاروں کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہے۔اسے زمانہ کی رفتاراور اس کی تبدیلیوں پر کچھ زیادہ ہی نظر رکھنی پڑتی ہے۔گزشتہ صدی سے جیسے جیسے زبان و بیان کے معیاراور مرکزیت کے تصور میں لچک پیدا ہوئی ہے،ناول اور افسانہ کی زبان میں بھی علاقائیت کا رجحان بڑھا ہے جس کے باعث علاقائی زبان ولہجہ، روز مرہ، محاورے اور ضرب الامثال کا استعمال بے ساختہ کیا جانے لگا ہے لیکن اس عمل کو اس لیے غیر مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اردو لکھنے اور بولنے والوں کی یہ اکتسابی زبان نہیں ہے اور اس تعلق سے انہیں اس کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اسی محاوراتی زبان کواستعمال کریں جس پر انہیں قدرت ہے۔ناول میں زبان کی تخلیق کے مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب وہ فنی تقاضوں سے گریز کرنے لگتا ہے اور عوام،عوامی زبان اور عوامی زندگی کو فراموش کرنے لگتا ہے جو زبان کی تخلیق کا اصلی سر چشمہ ہیں۔فن اور فنکار سے متعلق بات کرتے ہوئے وارث علوی فرماتے ہیں :

’’فنکارکا کام تو آدمی جیسا ہے،ویساہی اسے قبو ل کرنا ہے۔زندگی کے سفر میں اس کے سامنے دردناک، ہولناک، ہیجان خیز، مسرت انگیز،خوبصورت اور بدصورت، ہرقسم کے مناظر آتے ہیں۔اس کا کام ان تمام مناظر، واقعات، تجربات اور حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنانا ہے۔اس لیے تو فن میں طنزومزاح سے لے کردردناکی اور المناکی،مسرت و انبساط سے لے کراور ہولناکی اور حیرانی تک اتنی رنگا رنگ کیفیات ملتی ہیں کہ اس کا شمار ممکن نہیں۔‘‘(۶)

تقسیم ملک کے بعد مذکورہ مسائل و مصائب نے اظہار خیال کے لیے ناولوں میں مختلف وسائل اور وجودی اسالیب کی اہمیت اور ضرورت کوناگزیر قرار دے دیا۔ اس دور میں قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، قدرت اللہ شہاب اور حیات اللہ انصاری وغیرہ کے یہاں موضوعات اور اسالیب میں کافی تنوع ملتا ہے۔ اس عہد میں ناولوں کی کرافٹ ،ہیئت اور اظہار کی مختلف نوعیتوں اور تجربوں کے لیے راہیں ہموار ہونے لگیں۔ تمثیل، تشبیہ، استعارہ ، تجرید اور علامت وغیرہ کو ناولوں کے فنی لوازم کے طور پر برتا جانے لگا۔۰ ۱۹۶ء تک آتے آتے ناولوں نے بغاوت اور انقلاب کی جو مشعل جلائی تھی وہ سرد پڑنے لگی اور اب ناول ایسے دوراہے پر ایستادہ تھا جہاں سے نئے تخلیقی اذہان پس وپیش کی کیفیت سے دوچار ہونے لگے کہ ناول اب کون سی سمت اور کس رخ پر سفر کرےگا؟ تجربے اور تبدیلی کی نوعیتیں کیا ہوںگی؟ لہٰذا یہاں سے ناولوں میں جدیدیت کا آغاز ہوا۔ جس میں ناول نگاروں کا نقطۂ ارتکاز اجتماعیت اورخارجی عوامل سے ہٹ کر ذاتی مسائل ، داخلی کرب، خوف، دہشت ، تنہائی، بیگانگی، قدروںکی شکست وریخت وغیرہ کے اظہار تک محدود ہوگیا۔ علامت ، تجریدیت، شعورکی رو، آزاد تلازمہ کو وسیلۂ اظہار بنایا گیا اور پلاٹ لیس، تجریدی، بیانیہ سے عاری، انٹی اسٹوری کہانیاں لکھی گئیں۔ اس نئی اور علامتی کہانی کے پیروکار میں قدیم وجدیددونوں ادیب شامل ہیں: انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی، جوگندر پال، بلراج مینرا، پیغام آفاقی ، خالدہ حسین، انور سجاد،احمد ہمیش، اقبال مجید، اقبال متین، رتن سنگھ، جیلانی بانو، حسین الحق، عبدالصمد، شموئل احمد، سید محمداشرف وغیرہ اور ان کے بعد کی نسل ہے۔

عصر حاضر میں تواتر کے ساتھ ناول وافسانے لکھے جا رہے ہیں جن میں کچھ ہی بلند پایہ علامتی ناول وافسانے توجہ کا مرکز بن پائے ورنہ بیشتر مبہم اور غیر واضح متن اور باعث تکثیرپس پشت ڈال دیے گئے۔ جدیدیت کے اس دور میں افسانہ ہیئتی اور معنیاتی سطح پر قابل اہم تغیرات سے روشناس ہوا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس کا المیاتی انجام ایسا سامنے آیا کہ تجربہ برائے تجربہ کی اندھی تقلید،عجیب اور نادر استعاروں علامات اور فنطاسی نے قاری اور نئی کہانی کے درمیان ابعاد اور بیزاری پیدا کر دی۔ تجریدیت کے نام پر ایسے ایسے تجربے کیے گئے کہ افسانے وناول لا ینحل معمہ بن کر رہ گئے  اور کیوں نہیں بنتا؟ جب ان کی بنیادی ساخت کو ہی توڑ مروڑکر پیش کیا جائے گا تو ایسا تو ہونا ہی تھا تجریدیت اور جدیدیت کی اس شدت اور انتہا پسندی نے ناولوں کی ترسیل اور تفہیم دونوں کو سخت گزند پہنچائی۔ اس تعلق سے مجتبیٰ حسین جدیدیت کی اس انتہا پسندی کی سخت مذمت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’پہلے تو کہانی میں سے کہانی کو نکالا، پھر کردار کو نکالا ، منظرنگاری کو نکالا، نقطۂ عروج کو نکالا، پھر ہوتے ہوتے قاری کو بھی نکال دیا...کہانی میں سے اتنی چیزوں کے نکل جانے کے بعد کہانی میں صرف افسانہ نگار باقی رہ جاتا ہے اور اس کے باقی رہنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیںآتی ۔ ہم اس دن کے بھی منتظر ہیںجب کہانی میںسے کہانی کار بھی نکل جائے ۔ ‘‘(۷)

۱۹۸۰ء کے بعد ناول نگاروں کی جو نسل سامنے آئی ہے اس میں نئے اور پرانے دونوں چہرے شامل ہیں۔ ۸۰ کے کے بعد جن کہانی کاروں نے اپنی شناخت قائم کر لی تھی ان میں اقبال مجید ، شفق ، عبدالصمد ، حسین الحق، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی ، خالد جاوید، صادقہ نواب سحر، غضنفر، سید محمد اشرف، شائستہ فاخری، شاہد اختر، ترنم ریاض، اخترآزاد کے ساتھ پیغام آفاقی شامل ہیں ۔ یہاں میرا مقصدفہرست سازی نہیں ہر چند کہ یہ کوشش ضرور ہے کہ نئے ناموں کی شماری سے ناولوں کے بدلتے مزاج، نئے مباحث، تقاضوں اور تازہ کاری کا پتہ چلتا ہے۔ناول خواہ کسی زبان میں لکھے جائیںوہ سماجی تاریخ کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ یہ جس عہد اور جس مقام کی بنیادوں پر لکھے جاتے ہیں اس میں اس مقام کے افراد، وہاں کا جغرافیائی پس منظر، تاریخی آثار (اگر مقام کا تعلق تاریخی ہوتو)وہاںکے رسم ورواج ، تہذیب وتمدن، معاشرتی وسماجی طور طریقے، زبان وبیان کا انداز، بولی ٹھولی اور محاورہ، بازار ہاٹ، گلیاں اور چوبارے، دشت وجنگل، باغ وبن، ندی نالے غرض اس مقام کی ہر طرح عکاسی کرتے ہیں ۔ اردوکی نثری اصناف میں ناول نگاری کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اردوناول کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسے ہر عہدسازادیبوں کی سر پرستی حاصل رہی جنہوںنے اس کے ارتقائی سفر میں نمایاں کردار ادا کیا۔

’’ذبح‘‘ مشرف عالم ذوقی کا ناول ہے جو تخلیق کار پبلی کیشنز، دہلی سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔اس ناول کا شمار اردو کے ان نمائندہ ناولوں میں ہوتا ہے جن میں سماجی ومعاشرتی عوامل کی عکاسی ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں ہزار گوشے بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ اس کا موضوع بنی نوع انسان کی زندگیوں اور سماج کے تمام تر مسائل پر مبنی ہے۔ آج کے حالات حاضرہ کو اس نے اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے۔ناول کی قرأت کے بعدیہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ذوقی گائوں، دیہات اور اس کے اطراف کی تہذیب وتمدن سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں تبھی تو انھوں نےایک ماں کی زبانی اظہار غم وغصہ کے حالات میں اداہونے والے کلمات سے قاری کو روبرو کرایا ہے ۔ اس کا بیٹا رفیق ایک لڑکی کے عشق میں بری طرح اس کے بھائیوں سے مار کھاتاہے ۔تب اس کی ماں سے یہ کلمات کہلوائے ہیں ۔ اس کی ماں کا حلیہ بیان کرتے ہوئے معلوم ہوتاہے کہ وہ اتر پردیش کے کسی گائوں کی رہنے والی ہے جو شلوار جمپر میں ملبوس ہے اور اس گائوں کے طرزرہائش اور وہاں کی زبان ،محاورے اور روز مرہ استعمال ہونے والی گالیوں سے اثر لے کر اپنی فنی مہارت کا اظہاربڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔

’’بساط‘‘ علی امام نقوی نے یہ ناول ۲۰۰۰ء میں تخلیق کیا اور پانچ محبان ملک وآزادی وشیدائے ملل سکھدیوؔ،رام پرسادبسملؔ،چندرشیکھرؔآزاد،اشفاق اللہؔ خاںاور سردار بھگت ؔسنگھ کو منسوب کیا۔یہ ناول ۲۷ ابواب پر محیط ہے۔اس ناول کے توسط سے نقوی نے حالات حاضرہ میں رونماسیاسی دائو پیچ سے قاری کو خبردار کیاہے۔یہ ناول تخلیق کار پبلشرز ، دہلی کی شاندار پیشکش ہے جو ۱۴۸صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ناول کشمیر کی دہشت گردی اور اس کے سیاسی مسائل کی بیباک ترجمانی کرتا ہے۔اس کے Back pageپر انیس امروہوی نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:

’’علی امام نقوی کا یہ ناول کشمیر کی دہشت گردی پر کم اوراس کے سیاسی مسئلہ پر زیادہ گفتگوکرتا ہے۔ناول کی ایک صنف یہ بھی ہے کہ راوی کشمیرکا کوئی مکمل منظرقاری کے سامنے پیش نہیں کرتا،وہ بمبئی میں رہ کر کشمیری اور بمبئی کے کرداروںکے ذریعے کشمیر کے معاملات پربات کرتا ہے۔خورشیدبٹ اور بختیار بٹ اگر بمبئی میں نہ بھی ہوتے تب بھی کشمیر پر اتنی گفتگو ممکن تھی جتنی ناول میں ہوئی ہے،لیکن ان دونوں کی موجودگی گفت وشنید کاجواز فراہم کرتی ہے۔اک ذرا دھیان سے پڑھیں توایک تہہ اور کھلتی نظر آتی ہے،راوی گھر کی کہانی بھی دراصل کسی نہ کسی زاویے سے کشمیر کے مسئلہ کا ہی بیان کرتی ہے۔حالانکہ وہ کہانی بذات خود ایک الگ واردات کی حامل ہے۔‘‘(۸)

اس ناول میں علی امام نقوی نے اپنی مدبرانہ وناصحانہ صلاحیت کے توسل سے عمدہ کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔عصر حاضر کے دہکتے ہوئے موضوعات میں سب سے اہم موضوع دہشت گردی کے گرد اس ناول کی تاروپود تیار کی گئی ہے۔ اس ناول میں فن کار نے آتنک واد،اگرواد،بمبئی شہر پر دائود ابراہیم کی گرفت اور بم دھماکے ،پنجاب کے سکھوں کی علیحدہ پسندی ،بوفورس اسکینڈل،اندرا گاندھی کا قتل اور راجیو گاندھی کے خفیہ سروس کے اشاروں پر ہوئے قتل پر بھی روشنی ڈالنے کی ضرورت سمجھی ہے۔ مصنف نے ملک کے تحفظاتی بحران کو پیش کیا ہے، آخر دہشت گردی کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟اس کی تعمیر میں کون کون سے عناصر کارفرما ہیں؟اس کے زیر سایہ کون سے حالات ظہور پذیر ہوتے ہیں؟ موصوف نے صاف گوئی سے آشکارا کیا ہے۔

’’جنگ جاری ہے‘‘ احمد صغیر کا یہ پہلا ناول ہے جو ۲۰۰۲ء میں شائع ہو کر قارئین سے روبروہوااور رفتہ رفتہ ان کے دلوں پر اپنے نشان ثبت کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ان کی بیشتر تصانیف حالات حاضرہ میں رونما ہونے والے حادثات وواقعات کی عکاس ہوتی ہیں بلکہ میںاگر یہ کہوں کہ وہ انہی سارے منظرنامے سے تاثر لیتے ہیںتو غلط نہ ہوگا۔اس ناول کا موضوع بھی بابری مسجد کے انہدام کے پس منظر میں پیش آنے والے حالات وواقعات ہی ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت اس بات کی غماز ہے کہ اس جمہو ری ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کی منظم سازشیں چل رہی ہیں جس کے زیر اثرحکومت پرسے اقلیتوں کا بھروسہ اٹھ رہا ہے۔اس ناول میں صغیر احمد نے بابری مسجد کی شہادت کے المناک منظرنامے کو اپنی فنی مہارت اور بصری چابکدستی سے اس طرح قاری کے سامنے آئینہ کیا ہے کہ سارے حالات آنکھوں کے سامنے رقص کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ ناول رام جنم بھومی(ایودھیا) کے نعرے کے سہارے فرقہ پرست ہندووادی طاقتوں کے منصوبوںکی قلعی کھولتا ہوا اور گاندھی جی کے قتل میں اہم کردار اداکرنے والے گوڈسے ؔکے نظریۂ فکر کی تبلیغ کو بھی بیان کرتا ہے۔

’’شہر میں سمندر‘‘ ۲۰۰صفحات پر مشتمل شاہد اختر کا پہلا ناول ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔اس کہانی کا کلائمکس ممبئی ہے جو پورے جہان میں فلمی (مصنوعی) دنیا کے لیے مشہور ہے ، مرکز میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ چونکہ مصنف خود بہ نفس نفیس بمبئی(اب ممبئی) شہر ہو آیا ہے اور یہ کہانی خود اس کی زبانی معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہنا گویا غلط نہ ہوگا کہ یہ ناول مکمل طورسے تجربے و مشاہدے کی ترجمانی کرتا ہے ۔آج اس تیز رفتار زندگی میں سبھی کو راتوںرات دولت مند بن جانے کی ہوس ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے اس طلسمی دنیا کی دردرٹھوریں کھانے پر بھی وہ آمادہ ہیں تاکہ لمبی چھلانگ لگا سکیں۔نتیجتاًآخر میں وہ اپنا سب کچھ لٹا کر اس دنیا سے بد دل ہو کر واپس کوئے یار میں آجاتے ہیں۔ ناول کا کلیدی کردار زید سلمانؔ ہے جسے ہم اس کہانی کا روح رواں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کہانی میں ناول نگار نے دکھایا ہے کہ عموماًپڑھا لکھا نوجوان طبقہ جوپریشان روزگار ہے اور اس پر مزید یہ کہ عدم روزگارکے باعث اپنے والدین سے اس کی نہیں جمتی آخر میں تنگ آکروہ مصنوعی الفت بھری دنیا (ممبئی)کا رخ کرتا ہے جس کے پس پشت تاریکی ہی تاریکی ہے۔اس ناول میں کئی ضمنی کردار ہیں جو سبھی اپنے مکالمے سے قاری کا ذہن کھینچتے ہیں۔اس ناول میں ایک مخصوص ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے جس کے پس منظر میں ممبئی کی فلمی دنیا ہے جہاں روبہ زوال اور تقریباًنادار ہو کر بھی جھوٹی شان وشوکت کو برقرار رکھنے کی قابل تسخیرکوشش کی جاتی ہے۔ اس دنیا میں لوگ مشترکہ خاندان کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ ان سب کی مخصوص شناخت ہونے کے باوجود ایک تہذیبی پس منظر بھی ہے۔ ثقافتی اقدار کسی طرح تخلیقی حسیت اور ایک بسیط حقیقی تجربہ کا حصہ بنتی ہیںاور ارضیت کس طرح فلسفیانہ جہت اختیار کرتی ہے، اس ناول کی روح ہے۔اس ناول میں مشاہدات اور تجربات کی جھلک ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ناول نگارنے زندگی اور کائنات کی بے رحم سچائیاںاور برہنہ حقائق کوپیش کرنے کے لیے سفاک لب ولہجہ ،ترش انداز بیان اور پرجلال اسلوب بھی اختیار کیا ہے۔         

’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘  اکیسویں صدی کا اہم ترین ناول ہے جس کے خالق شمس الرحمٰن فاوقی نے جگرکاری کے ساتھ ارد و ادب میں اپنی شناخت بحیثیت ناول نگار کے قائم کی ۔ اس ناول کو پینگوئین انڈیا نے۲۰۰۶ ء میں شائع کیا تھا۔ اس ناول کے ظہورپزیرہونے سے فاروقی کاناول نگاری میں بھی مقام متعین ہوا۔اس ناول کی اہمیت اور تخلیقی حیثیت کا اعتراف کرنے والوں کا ہمیں ایک جم غفیر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہ ناول اتنا مشہور ہوا کہ اس کا انگریزی میں ترجمہ ’’The Mirror of Beauty‘‘ کے نام سے ہوا۔اس ناول نے فنکار کو یقینی طور پر ایک بلند مرتبت عالمی اعزاز بخشا ہے۔اس ناول کے ہندی اور انگریزی ایڈیشن بھی شائع ہو کر مقبول عام وخواص ہو چکے ہیں۔مصنف نے اس ناول میں جو زبان کے استعمال کی ہے وہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی سے متصف ہے۔ انہوںنے اس زبان کا اسلوب تذکروں، سوانح، خودنوشت اور دیگر دستاویزی حوالہ جات سے اخذ کیا ہے جب کہ زبان کی صحت کے لیے انہوں نے شیکسپیئر،ڈنکن فوربس،جان گلکرسٹ وغیرہ کے مرتب کردہ لغات سے رجوع کیا ہے۔انہوں نے وہی زبان لکھی جواٹھارہویں اور انیسویں صدی میں رائج تھیں۔یہ ناول تاریخ نہیں ماضی کی بازیافت ہے ، یہ تاریخ نہیں تہذیبی مرقع ہے۔

فاروقی نے وزیر خانمؔ کی صورت میں ایک تاریخی اشارے کو انیسویں صدی کے حسن کا زندہ شاہکار (Celebrated beauty)بنا دیا ہے اور یہ شاہکار انیسویں صدی کے ہندوستان کاچہرہ بن گیا ہے۔یہ اس تہذیب کا حوالہ ہے جس میں تہذیب شاعری اور شاعری تہذیب میں گھل مل گئی تھی۔فاروقی اس ناول کو تاریخ نہیں مانتے جب کہ قارئین کا ایک بڑا طبقہ اس ناول کو تاریخی ہی حیثیت سے پڑھتا رہا ہے ۔ اس ناول میں تاریخ کی صحت سے زیادہ تہذیب کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے۔اس ناول میں پیش ہونے والے بیشتر کردار تاریخ کا زندہ حصہ ہیںجن میںبہادرشاہ ظفرؔ، ذوقؔ، غالبؔ، مومنؔ، حکیم احسن اللہؔ خان،گھنشیام لال عاصیؔ،ظہیرؔدہلوی،داغؔ دہلوی،مرزا فخروؔ، نواب یوسف علیؔ خاں، صہبائیؔ، مارسٹن بلیکؔ، ولیم فریزرؔ، نواب شمس الدینؔ احمدوغیرہ ہیں۔یہ تمام کردار تلمیحی واقعات کے بجائے علامتی حقیقت بن گئے ہیں ۔وزیر خانم سے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہ داغ دہلوی کی والدہ ماجدہ ہیں۔اس ناول میں اٹھارہویںصدی کے راجپوتانے سے جو کہانی شروع ہوتی ہے وہ۱۸۵۶ء تک پر بسیط لال قلعہ پر آکرختم ہوتی ہے۔اس کا اختتام المیہ پرہوتا ہے۔گویا کہ یہ ناول تہذیب کا آئینہ اور تاریخ کی تاریک گلیوں کی گمشدہ کڑیوں کا ترجمان ہے۔

’’کہانی کوئی سنائومتاشا‘‘ صادقہ نواب سحر کی بیانیہ تکنیک کی عمدہ کار کردگی ہے جو ۲۰۰۸ء میں ظہور پذیر ہوا۔یہ ناول ۲۲۴صفحات پر مشتمل ایک خوبصورت ناول ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی نے شائع کیا۔ جب یہ ناول منظرعام پر آیا تو خوب سرخیا ں بٹوری اور خاصامقبو ل ہوا۔اگر اس ناول کا غائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ اس کا تاناباناعورت کے استحصال کو مرکز میں رکھ کرتیار کیا گیا ہے یعنی اس کا موضوع عورت کا استحصال ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار متاشاؔہے جس کی کہانی قاری کے دل ودماغ پر نقش کر جاتی ہے لیکن اس کے دیگر کرداروں میں یوراجؔ، گوتمؔ، درگاؔپر ساد، پاروتیؔ، پرشانتؔ،جھنوؔ،منجوؔ، پربھاکرؔ، بھرتؔ،گوپیؔ وغیرہ ہیں۔صادقہ نے ایک عورت کی زندگی میں رونما ہو نے والی المیاتی وبحرانی تصویر کو فنی مہارت کے طور پر پیش کیا ہے۔یہ ناول مصنفہ کا پہلا ناول ہے۔اس ناول کے مطالعہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مصنفہ ایک عورت کے کرب والم اور اس کی بے بسی کو خود اسی کی زبانی بیان کرنے کے ہنر سے واقف ہیں ۔متاشا ؔناول کا ایک نمایاں نسائی کردارہے،جس کے گرد کہانی گھومتی ہے۔متاشا کو پوری زندگی اپنے لڑکی ہونے کا قرض اداکرناپڑتا ہے۔رشتے جدا جدامگرہررشتے میں دی جانے والی اذیتیںیکساںہوتی ہیں۔یہ صرف ایک متاشا کی کہانی ہے،ہر گائوں،ہر شہر،ہر ملک کی کہانی ہے۔اس ناول کو صادقہ نے اس ناول کے کردار’ متاشا‘کے نام اور اس جیسی تمام متاشائوں کی نذر کیا ہے۔

’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ہندوپاک کی تقسیم کے پس منظرکی ایک بہترین تخلیق ہے۔مشرف عالم ذوقی کا یہ ایک پیچیدہ ،یک موضوعی نہیں،متنوع موضوعات کا ایک وسیع کینوس ناول ہے جو ۲۰۱۱ء میں شائع اورتقسیم ہند کے بعدکے حالات اور اس کے سماج میںوقوع پذیرہونے والی تبدیلیوںکا پتہ دیتا ہے۔مصنف نے اس کا آغاز کاردار خاندان کا شجرہ تصویر کی شکل میں درج کیاہے۔اس کے اول میں چار حصے ہیں۔ ہر حصے میں متعدد ابواب شامل ہیں۔ ناول نگار اس ناول میں ان مقامات کو چھو آتے ہیں جہاں سانس بھی آہستہ لی جاتی ہے۔ایک طرف کہانی تقسیم کے بعد منہدم ہوتی تہذیب کو لے کر چل رہی ہے تو دوسری طرف مسلم معاشرے کے توہمات،ان کی تہذیبی اقدار (Culturel Values )فنکارکا بچپن اور ماحول جو اس کے حساس ذہن پہ کیسے اثر انداز ہوا ہے یہ تمام چیزیں اس ناول میں دیکھنے کو ملتی ہیں ا ورعام مسلمانوں کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ کہانی دراصل تہذیبوں کے تصادم کی کہانی ہے۔ مصنف نے اپنے اس ناول میں تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حالات اور ان کی فکر کااحاطہ کیا ہے۔اس کا مرکزی کردارعبدالرحمٰن کاردارکہانی سناتا ہے اور اس کے دیگر کرداروں کے ساتھ خود اس کا حصہ بھی ہے۔ عبدالرحمٰن کاردارؔ کی پیدائش تقسیم ہندسے محض ایک گھنٹے قبل ۱۴ ؍ اگست۱۹۴۷ ء رات کے گیارہ بجے ہوتی ہے۔کاردار بلند شہر کی حویلی کے مکینوں کے جاگیردارانہ اور نوابی کے مزاج کا مالک ہے۔یہ بچپن سے ہی شعر وادب اور انسان دوست وفطرت کا دلدادہ ہے۔اس ناول کے متعلق ذوقی نے منصور خوشترانڈیاجوفواد کندی پاکستان کی طرف سے کیا گیا تھا کو دیے ایک انٹرویومیں کہتے ہیں :

’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ در حقیقت میرؔکے اسی شعر کی ترجمانی کرتا ہے۔اس انتہائی ترقی یافتہ سائنسی عہد میں ہمارامعاشرہ اچانک ایک ایسی تاریک سرنگ میں داخل ہو گیا ہے جہاں حقیقت اور تصویریت سے الگ ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی تصورات اس جینوم اور کلوننگ عہد میں قابل قبول بھی ہے یا نہیں ؟یا پھر یہ کہ جد یدطرز زندگی اورعریانیت اگر ایک دوسرے کے ہم خیال ہیں تو پھر انسانی اخلاقیات کے کورے صفحوں کو لکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟شاید اسی لیے یہ کہانی ایک ایسے موقع پر جنم لیتی ہے جب سنہ۲۰۰۹ء کے آخر میںکوپین ہنگین میں ماحولیات کے تحفظ کو لے کرہونے والی کانفرنس ایک فلاپ شو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘(۹)

یہ ناول ان لوگوں کی کہانی ہے جو آزادی کے ملنے سے پہلے جس تہذیب کے پروردہ تھے، آزادی کے ایک گھنٹہ بعد ہی ایک نئی تہذیب اور بدلتی قدروں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں اور ایسی تاریخ جس میں ہجرتوں کا سامان بھی تھا اپنوں سے بچھڑنے کا غم بھی ، کچھ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت اور کچھ محض نعروں کے شور میں بہہ گئے تھے لیکن جو یہیں پر آباد رہے ان کے لیے تو قومیت اور حب الوطنی کے اس پل صراط سے بھی گزرنا تھا جو تقسیم اور آزادی نے انہیں بخشا تھا ۔ ذوقی نے ان سارے سوالوں کو نہایت خوبصورتی سے اپنے اس ناول میں گوندھا ہے۔یہ ناول دراصل تہذیبوں کے تصادم کی کہانی ہے جو حقیقی کرداروں کے درمیان بندھی ہوئی روانی سے چلتی ہے کہ ذرا بھی کہیں فکشن کا گمان نہیں ہوتا ہے۔

’’لیمی نیٹیڈگرل‘‘ عصر حاضر کے منظر نامے سے روبرو کراتااخترآزاد کا یہ پہلا ناول ہے جو۲۰۱۳ء میں ماڈرن پبلشنگ ہائوس،نئی دہلی سے شائع ہوا۔یہ ناول ان والدین کے لیے لمحۂ فکریہ بناجو اپنے بچوں کوReality showمیں حصہ لینے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں تاکہ ان کے بچے وقت سے پہلے جوان ہو جائیں اوران کا نام پورے جہان میں مشہور ہو جائے۔مصنف نے اس ناول کا انتساب ان لوگوں کے نام کیا ہے جنہوںنے لیمی نیشن پروسیس کے خلاف احتجاج کا علم بلندکیا اور اس کی شروعات گھر کی چہاردیواری سے کی، اسے میدان ِعمل بنایااور بیٹیوں کو’لیمی نیٹیڈگرل‘ بننے سے بچایا۔موضوع کے اعتبار سے یہ بالکل منفرد ناول ہے اور قاری کوایک نئے موضوع سے روبرو کراتا ہے ،جس میں ٹی۔وی۔کلچر کے منفی اثرات کو بڑے ہی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اس ناول میں فنکار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح ٹی وی کلچربچوں کے ساتھ والدین کو بھی گمراہی کے مکڑ جال میں قید کر لیا ہے کہ اس سے فرار کی راہ مشکل ترین امر ہے۔اپنے بچوںکی ضد کے آگے والدین بھی مجبور نظر آتے ہیں کہ وہ آخر کیا کریں ؟آخر میں وہ بھی بادل نخواستہ ان کی پسند کے چینل کے مطابق انہی کے پروگرام کو ترجیح دینا شروع کردیتے ہیں۔ناول میںعہد حاضر کے سائنسی آلات پر انسانی زندگی کا انحصار اس ناول میں دکھایا گیا ہے۔اس تیز رفتار زندگی میں سب کچھ جیسے مشینی ہو گیا ہے اور انسانی عقل و شعور بالکل مائوف ہو چکی ہے۔ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت جیسے ختم ہو چکی ہے۔ان سب کا ذمہ دار موبائل ، ٹی۔ وی اور رئیلٹی شوز کے ساتھ ساتھ آج کے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو ایسے پروگراموں میںبھیجنا اپنے شایان شان سمجھتے ہیں۔جب کہ اس کے پس پشت ان بچوں کی معصومیت اور ان کا بچپن چھینا جا رہا ہے۔اس میں ناول نگار نے بطور مصلح اپنی تحریروں سے کام لیا ہے جو قابل ستائش ہے۔

’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ نورالحسنین نے تاریخی پس منظر میں اپنے اس ناول کی تخلیق کی ہے جس کا سنہ اشاعت ۲۰۱۳ء ہے اور ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ ہی اکثر انسانی حیات کا مقصد ہوا کرتا ہے اور اسی سے نظریۂ حیات جنم لیتا ہے نظریۂ فلسفہ بن جاتا ہے۔نورالحسنین کا یہ ناول آزادی پر بسیط ہے۔اس ناول کے موضوع وہ عام لوگ ہیں جنھوں نے اس جنگ میں شریک ہو کر جام شہادت نوش کیا جن کے کارناموں پر تاریخ تو خاموش ہے لیکن اس کاموضوع بہت کچھ بیا ن کرتا ہے ۔فنکا رکا یہ ناول اپنے عنوان کے لحاظ سے تاریخیت اور تاریخی شعور کے تمام اوصاف کی جانب قاری کا ذہن مبذول کراتا ہے ساتھ ہی اس کے فنی عناصر قاری کو ابتدا تا انتہا باندھے رکھتے ہیں ۔

’’صدائے عندلیب بر شاخ شب‘‘ شائستہ فاخری کا یہ عمدہ ناول ۲۰۱۴ء میں شائع ہو کر منظرعام پر آیا۔ ناول’صدائے عندلیب برشاخ شب‘میں مصنفہ نے نہایت پیچیدہ موضوع کا انتخاب کیا ہے۔یہ ناول بنیادی طور پرنسائی(Feminism) ادب کی نمائندگی کرتا ہے۔ خصوصاََ خواتین کے جنسی ومعاشرتی استحصال کی حقیقی منظرکشی کی ہے۔اس ناول کا کینوس ایک عزت دارخاندان کی وساطت سے اپنے گردو نواح میں پھیلی ہوئی ایک بستی کا پورا احاطہ ہے۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ اس بستی میں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں۔اس میں اعلیٰ قسم کے لوگ بھی ہیں جن کے پاس مال و دو لت کی فراوانی ہے،متوسط طبقہ بھی ہے اوروہ لوگ بھی ہیں جو جھگی جھونپڑیوں میں اپنی زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ان جھونپڑیومیں رہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کواونچی سوسائٹی والوں کو یہاں جا جا کرکام کرنا پڑتا ہے اور ان کی اسی غریبی اور مجبوری کا ناجائزفائدہ اٹھا کر اس سوسائٹی کے لوگ ان کا جسمانی استحصال کرکے ان کی عصمت کو داغدار بنانے سے نہیں ہچکچاتے ہیں اس کے بعد یہ لڑکیاں مجبور ہو کر جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہو جاتی ہیں۔یہ طمانچہ اس اونچی سوسائٹی والوں کے منھ پر ہے جو سماج میں اپنا دبدبہ ووقار قائم رکھنے کے لیے کھوکھلا ڈھونگ رچاتے پھرتے ہیں ۔ساتھ ہی اس بستی میںفلاہی کام بھی ہوتے ہیں اور اصلاح معاشرہ کی بھی کوششیں ہوتی ہیں۔سیاست کے تماشے بھی اس بستی میں عام ہیںاور اقتدار کی ہوس میں کھیلے جانے والے ڈرامے کی بھی عکاسی کی گئی ہے،جس میں ایک دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولیاں چلائی جاتی ہیں ۔اس ناول میں ہندوستان کے عصر حاضر کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے جس سے ہم سبھی واقف ہیں اس کے باوجود اس کا حصہ بننے کے لیے مجبور ہیں ۔ اس ناول میں شائستہ نے خود کلامی کی تکنیک کا بھی استعمال کیاہے۔

’’نعمت خانہ‘‘ ۲۰۱۴ ء میں شائع ہواجس کے خالق خالد جاویدنے اسے پانچ ابواب میںتقسیم کیا ہے جو ہوا،شور،نزلہ شورااورسناٹے پہ مبنی ہے۔یہ دراصل انسان اور معاشرے کی عدم مطابقت اور بیگانگی کی روداد ہے جس کا شکار آج کا انسان ہے۔فنکار نے وجودیت کو موضوع بنا کر اپنا اختصاص قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔اس ناول کا مرکزی خیال’ بھوک‘ہے۔ ناول میں زندگی کوسمجھنے اور سمجھانے کا راز مضمر ہے۔انسان زندگی اور موت کے درمیان اپنی بقا کی جدوجہدکرتے ہوئے گزارتا ہے اور اس بقا کے لیے اسے سب سے پہلے خوراک کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔جب تک بھوک لگتی رہتی ہے انسان زندہ رہنے کے لیے اپنے ہاتھ پیر مارتاہے تاکہ خوراک کی فراہمی ہوسکے۔جب تک بھو ک لگتی رہتی ہے انسان زندہ رہتا ہے۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے زندگی کو سمجھنے سمجھانے کے لیے ایک نئے تصور کو تشکیل دیا ہے،پھر اسے بھرپورطریقے سے پھیلایا ہے اور یہ تصور ناول میں پورے جوازکے ساتھ آیا ۔ہر جاندار کی بنیادی ضرورت خوراک ہوتی ہے اور وہ اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لیے جدوجہد کرتا ہوا اس کو حتی الا مکان قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے وقفہ وقفہ بھوک کا احساس ہوتا ہے۔یہی بھوک اس کی موت اور زندگی کے مابین واضح لکیر ہے۔انسانی بھوک کی سیرابی کا سامان باورچی خانے میں موجود ہوتا ہے یعنی اس کو مٹانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس ناول میں بنیادی تصور’بھوک‘ہے جو بیشتر فساد کی بھی جڑ ہے۔اس بھوک کو ختم کرنے کا جہاں سے سامان فراہم ہوتا ہے وہ ’نعمت خانہ‘ہے۔باورچی خانے میں کھانے تیار ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کو آگے بڑھانے میں معاون ومددگار ہوتے ہیں ساتھ ہی اسی باورچی خانے میں انسانی زندگی کو ختم کرنے کا بھی سامان موجود ہوتا ہے۔جو چاقو سبزیاں کاٹنے کا کام دیتا ہے اس سے کسی کی گردن کاٹ کرانسانی زندگی کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔اس میں باورچی خانہ کا بھیانک منظر پیش کیا گیا ہے جہاں راوی کے ہاتھوں لڑکپن ہی میں آفتاب بھائی کا قتل ہوجاتا ہے کیونکہ انہوں نے انجم باجی کی عصمت باورچی خانہ میں بلاکر لوٹی تھی اور اس فحش اور خوفناک منظر کو راوی حفیظ الدین بابر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ذرا ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’جرم ، سزاکی نقل کرتا ہے اور گناہ ثواب کی ۔ میں اس تماشے کو ڈگڈگی بجا بجاکر دکھانے کے لیے قربان گاہ میں لایا جاتا ہوں۔ یہ ساری دنیا اسی طرح کا تماشہ ہے۔ نقل کر کے ہی یہ دنیا بنی ہے۔ انسانوںنے خدا کی نقل کرنا چاہی، وہ بے رحم اور آمر ہو گیا۔ جانوروں نے انسان کی نقل کی ، وہ اسی کی طرح کمینے اور بے شرم ہو گئے۔ بچوں نے بڑوں کی نقل کی، ان کے زیر ناف بال جلدی اگ آئے۔ عورتوں نے مردوں کی اور مردوں نے عورتوں کی نقل کی ، دونوں ہیجڑے بنتے چلے گئے۔‘‘(۱۰)

مصنف نے اس ناول کا تانابانا بنتے ہوئے نعمت خانہ میں موجود ان اوزاروں کو مرکزی حیثیت کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اس ناول کے آغازمیں فن کار نے دکھایا ہے کہ متکلم اپنے پرانے گھر کے کھنڈر پر کھڑاہے اور اسے دور جاہلیت کے عربی شعرا یادآتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کاا ٓغازاسی طرح کھنڈر پر ہو کر کیا تھا۔متکلم کے ساتھ ایک ذات ہوا بھی ہے ۔اس ناول میں حال اور ماضی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے جس میں خالد جاوید نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔اس ناول کا انگریزی ترجمہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی پروفیسر باراں فاروقی نے ’’Paradise of food‘‘ کے نام سے کیا  جس پر مصنف کو JCBانعام سےبھی نوازا -

 ’’اجالوں کی سیاہی‘‘ عبدالصمد کا ایک خوبصورت ناول ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ، دہلی نے اہتمام کے ساتھ ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ۔ناول نگارنے اس ناول کا انتساب اپنے دوست اور معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے نام کیا ہے ۔یہ ناول ۲۳۹ صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ناول ایک شاہکار کا درجہ رکھتا ہے جس میں موجودہ دور کے معاشرے کی بہترین عکاسی کی گئی ہے ساتھ ہی حالات حاضرہ پر بیباک تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔اس ناول میںیہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جس معاشرے میںزندگی گزار رہے ہیں اس کے تاروپودکس طرح تعمیر ہوئے ہیں؟ یہ کس قدر سیاست دانوں کے اشاروں پر رقص کرتی ہے۔ عام انسانوں کی کیا اعلیٰ عہدے داران بھی ان کے اشارے کے غلام بنے ہوئے ہیں جس کے پس منظر میں سماج میں بدامنی کانظارہ ہر چہار سو رونما ہے۔اس کی کہانی ایک مسجد کے امام کی زندگی کا المیہ ہے جن کا چھوٹا بیٹا فہیمؔ ؔکسی کی محبت میں گرفتار ہو کر خود کی زندگی تباہ کر لیتا ہے۔اس ناول میں لوجہاد کے نام پر لوگوں کا قتل کرنے والوں اور اس طرح کی سازش رچنے والوں تک پولیس اور جانچ ایجنسیاںپہنچنے سے قاصر ہیں ۔ اس ناول میں امام صاحب کا گھر پوری طرح سے تباہ ہوجاتا ہے۔ مولوی فضل امام کو مرکزی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے کردار بھی نہایت مناسب انداز میں بیان کیے گئے ہیں ۔ مختصراًیہ کہ ناول اپنے معنوی اعتبار سے مکمل ہے اور وہ اپنے تمام لوازمات ، کردار نگاری ، مکالمہ نگاری، منظرنگاری اور اسلوب بیان میں اپنے معیار پر کھرا اترتا ہوا نظر آتا ہے۔سیاست دانوں نے مذہب کے نام پرکس طرح سماج ومعاشرے میں زہر پھیلا یا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے جوہمارے ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور جس کی کالی چھایا اس ملک پر بھی پڑتی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔عبدالصمدنے تمام احوال وکوائف کونہایت باریک بینی سے قاری کے سامنے آئینہ کیا ہے ساتھ ہی نفرت،سفاکیت اور بے حسی پر کاری ضرب لگانے کا پیغام بھی دیا ہے۔

’’تخم خوں‘‘ صغیر رحمانی کا شہرت یافتہ ناول ہے جو ۲۰۱۶ء میں شائع ہوا۔ اس کا موضوع دلت مسائل (Discourse)ہے جس میں مصنف نے نئے انداز تحریر کے ساتھ عصری حسیت اور طبقاتی امتیازات کو بڑے ہی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ یہ ناول اس اعتبار سے بھی اہم ناول ہے کہ اس میں ہندوستان کے دیہی سماج میں ہونے والی تغیرات ، دلت ڈسکورس، سامنت واد، برہمن واداورنکسلی نقل وحرکات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ناول صوبۂ بہار کے ماحول وفضاکی حقیقت کا غماز ہے جس میں بہار کی معاشرتی وسماجی صورتحال کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کا مرکزی کردار ٹینگرؔاور اس کی بیوی بلایتیؔ ہے جو چماروں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں ۔ ان کے کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ ٹینگرکی مردانہ قوت میں کمی ہے اور اس کی بیوی بلایتی اولاد کے لیے مضطرب رہتی ہے جو نسوانی فطرت کا ایک خاص وصف ہوتا ہے۔ بلایتی پورے گائوں کی عورتوں کی زچگی کراتی ہے لیکن خود ہی بچے سے محروم رہتی ہے۔ ٹینگر کو اپنی کمزوری کا سخت احساس ہے لیکن مجبور ہے جس کی وجہ سے اپنے دکھ کا اظہار کھل کر نہیں کرپاتا ۔ادھر اس کی بیوی بچے کی چاہت میں گیانی اوجھاؔکے پاس جاتی ہے تاکہ اس مسئلے سے پارپانے کی کوئی سبیل نکل سکے۔

’’روحزن‘‘ رحمٰن عباس کا چوتھا ناول ہے جو عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی سے۲۰۱۶ء میں شائع ہوا۔اس کا انتساب ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی روشن علامت پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نام ہے۔یہ اپنے طرز کا ایک منفرد ناول ہے جسے ناول نگار نے جدت کے ساتھ آٹھ ابواب پر تیار کیا ہے۔منفرد اور جدت اس معنٰی میں کہ ہر باب کاآغاز ایک مصرعے سے ہوتا ہے۔اس ناول کا پہلا باب اس مصرع ’جو زہر ہے میرے اندر وہ دیکھنا چاہوں‘سے شروع ہوتا ہے اور آخری یعنی آٹھواں باب’نہ سر پہ راہ دکھاتی ہوئی ہواچاہوں‘سے شروع ہوتا ہے۔ اس طرح اس ناول کے آٹھوں ابواب کے تمام مصرعوں کو یکجا کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ چار اشعار کی ایک خوبصورت غزل تعمیر ہوکر فنکار کی فنی مہارت کا پتہ دیتی ہے۔ یہ ناول ۳۵۵صفحات پر مشتمل بہت خوبصورت ناول ہے جوناقدین کی نظر میں نہ صرف رحمٰن عباس کاسب سے کامیاب ناول ہے بلکہ حالیہ صدی کا بھی سب سے سنجیدہ ،بحث طلب اور متنازع بھی ہے۔ بعد ازمطالعہ اس ناول کے ہر قاری، ادیب اور نقاداس کی مختلف تعبیر تلاش کر تاہے۔کسی کا ماننا ہے کہ یہ ناول مرد اور عورت کے رشتے کی گہرائی اور اس گہرائی کی تلچھٹ میں مضمر محبت کی خواہش پر گفتگو کر رہا ہے توکوئی جنس اور محبت پر بحث کے درمیان صدیوں سے جاری کشمکش کو بیان کر رہا ہے۔کچھ لوگ ناول میں موجود خیروشر کی جنگ پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔یقیناً اس ناول میںان باتوں کے علاوہ بھی کئی موضوعات کی گنجائش ہے۔انہی میں سے ایک ہے شہر ممبئی کا تذکرہ ۔فن کار اس ناول میں شہر ممبئی کو ایک نئی معنویت اور تہہ داری سے دریافت کرتا ہے۔ ناول کا اختتام۲۰۰۵ء کے اس خونیں سیلاب کے ساتھ ہوتا ہے جب اس سدابہار شہر کی سانس رک گئی تھی۔یہ شہر جو ہمہ وقت بھاگ دوڑ،تیز رفتاری اور اپنی سرگرمیوں کے لیے دنیا میں جانا جاتاہے،آسمان سے گرتے ہوئے آبشار سے ڈر سہم گیا تھا۔’روحزن‘میں ممبئی کی بارش کا بیان طلسمی حقیقت نگاری کی شاندار مثال ہے۔

’’آخری سواریاں‘‘ سیدمحمد اشرف کا ناول ہے جو ۲۰۱۶ء میں عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی سے شائع ہو ا۔یہ ناول ماضی کی بازیافت ، حال کی کسک اور مستقبل کی تشویش کا غماز ہے۔ یہ ناول بیانیے کے پیرائے میںایک دلچسپ تخلیق ہے ۔یہ ناول نشاط وکرب کے احساس زیاںسے روشناس کراتا ہے۔مصنف نے یہ ناول اپنے جدمکرم سید آلِ عباقادری (حضرت آوارہ)سے منسوب کیا ہے۔ یہ ناول ان کے پہلے ناولوںسے قدرے مختلف ہے۔اس ناول کی تعمیر میں ۲۰۹صفحات شامل ہیں جو تہذیبوں کے ٹکراؤ اور نئی تہذیب کی آمیزش کے ساتھ عہد حاضر کے مسائل اور عام انسانوں کی بے بسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔یہ ناول اکیسویں صدی کی عمدہ تخلیق ہے جس نے فنکار کے مقام کو متعین کیا اور اسے اردو فکشن کی دنیا میںعروج عطا کیا۔یہ ناول غیر محسوس طور پر تین حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں جمّو (جمیلہ) ایک غریب ملازم کی بیٹی ہے اور اکرم (چھوٹے میاں ) قصبہ کے بااثر اور باعزت گھرانے کا فرد ہے جن کی باہمی رفاقت قابل توجہ ہے ۔اس کا مرکزی کردارچھوٹے ؔمیاں(واحد متکلم)ہے جسے نفسیاتی کشمکش میں قیدکرتے ہوئے بچپن ، جوانی اورزندگی کے آخری سفر پر جاتے ہوئے انسانی حقیقت کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ راوی کے افراد خانہ کے علاوہ پنڈت جی کی بیٹی شارداؔ، شام لالؔ اور منشی شفیع الدین ؔکے اہم کردار ہیں۔دوسرے حصے میں چھوٹے میاں بالغ اور شادی شدہ ہوجانے کے بعداپنی بیوی سے یوںہی بے معنٰی باتیں کرتا ہے اور اس کی بیوی کی باتوں میں حیرت واستعجاب اور کرید وجستجوہوتی ہے۔ماضی کوجاننے کی دُھن میں تقریباًوہ ایک ہی محور پر گھومتی رہتی ہیں لیکن کہانی کا کمال یہ ہے کہ ماضی کے ساتھ ساتھ حال کے قصوں کی نوعیت اور انفرادیت بھی واضح ہوتی رہتی ہے۔تیسرے حصے میں چھوٹے میاں ایک مؤرخ کے طور پر سامنے آتا ہے اور تاریخی واقعات کو معروضی شکل دیتے ہوئے عہد حاضر کی نہایت مؤثر انداز میں منظر کشی کرتاہے۔ مطالعے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سید محمد اشرف نے ایک ہمدردانہ غورو فکر، حساس دل اور ایک سچے قلم کار کی ذمہ داری بھرپور سلیقے سے عطا کی ہے۔

’’ہجور آما‘‘شبیر احمد کالسانی،تاریخی،سیاسی، تہذیبی ومعاشرتی نظریے کا ناول ہے۔ ناول کی ضخامت۴۸۰ صفحات پر مشتمل ہے جو ۲۰۲۰ء میں شائع ہوا۔اس میں تجدیدیت کے زیر اثر وجودی تجربات و تصورات کے اظہار کوواضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ناول کاانتساب کورونا وائرس سے لڑنے والے طبی عاملوں کے نام ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کی سماجی و معاشرتی ترجمانی کرتا ہے۔ناول میں بنگال کے منظرنامے کو مصنف نے جس طرح پیش کیا ہے یہ اسی کا خاصہ ہے۔سرزمین بنگال نہ صرف مردم خیز ہے بلکہ ہر اعتبار سے بڑی زرخیز بھی واقع ہوئی ہے۔ یہاں کی زندگی ، شادی بیاہ، ناچ گانے ، لباس ، لذیذ کھانے ، کھیت کھلیان، حسن وعشق کے قصے ،بزرگان دین کی بہتات، علم وادب کے ماہرین ، غرض ہر طرح سے بنگال دیگر صوبوں کی بنسبت انفرادیت کا حامل ہے۔ اس میں بھی ذکر جب شمال مشرقی بنگال کا ہوتا ہے تو ایک الگ ہی جغرافیائی و قدرتی مناظر ذہن میں گشت کرنے لگتے ہیں جس کے پس منظر میںلسانی وتاریخی کینوس تعمیر ہوتا ہے۔ان خطوں میں ریاست بنگال کے کچھ اضلاع جن میں کوچ بہار، مالدہ، جلپائی گوڑی، دارجلنگ، شمالی دیناج پوراور جنوبی دیناج پور خصوصی اہمیت کے حامل ہیںجہاں کی قدرتی آب وہوا، دلکش مناظر، صاف و شفاف فضائیں، قلقل کرتے جھرنے، سرسبزو شاداب وادیاں،برف سے لپٹی اور انگڑائی لیتی پہاڑوں کی چوٹیاں اور بل کھاتی اپنی دھن میں بہتی ندیاںسیاحوں کا دھیان اپنی جانب مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں:

’’چہار جانب ہمالیہ کی سر سبز وادیاں ! ان کے بیچ دور تک گھنے جنگلوں میں اٹھلاتی بل کھاتی ، ٹیڑھی میڑھی راہوں سے اترتی یہ نیلی نیلی ندی! اور یہاں نیلے اور کالے پانی کا یہ حسین سنگم! جھرنے کی مترنم آواز اور اونچائی سے گرتا ہوا آبشار! اور ان سبھوں کے اوپر سفید اجلے بادلوں اور نیلے آسمان کا خوان پوش جیسا غلاف! واقعی بڑا خوبصورت منظر ہے۔‘‘

’’وہ پہاڑ کی حسین وادیوں میں کھونے لگا تھا۔ آبشار سے اڑ کر آنے والے پانی کے نرم نرم چھینٹے بدن میں سنسنی پیدا کر رہے تھے۔ اس کے ہاتھ خود بخود آبشار کی سمت بڑھ گئے۔ دل چاہا ، آبشار کے نیچے کھڑا ہو جائے اور اس وقت تک کھڑا رہے جب تک جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی پوری طرح سیراب نہ ہو جائے۔‘‘(۱۱)

مصنف نے ناول میں ان مقامات کے تاریخی ، تفریحی و جغرافیائی مناظر کو ایسے دلکش ا نداز اور حسین پیرائے میں پیش کیا ہے کہ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان وادیوں میں گم ہو گیا ہے اوران مقامات کی سیر کر رہا ہے جو مصنف کی فنی مہارت کا بین ثبوت ہے۔بنگال کی زندگی کو ادب خصوصاًفکشن میں پیش کرنے والے یوں تو متعدد فکشن نگار ہوئے ہیں لیکن ایسے فکشن نگار جنہوں نے اپنی اس خوبی کی بنا پر اردو میں بنگال کی خوبصورتی کو آشکارا کیا ہے، ان میں شبیر احمد کی شناخت انفرادیت و امتیاز کی حامل ہے۔اس کی کہانی آ ج سے تقریباً تین ہزار سالہ تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ہندوستان میں مختلف فرقے ،طبقے ومذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں جو اپنی تہذیبی، معاشرتی اور ثقافتی اطوار سے اس ملک کو کثرت میں وحدت کا ملک کہلانے کا حق عطا کرتے ہیں۔ناول میں تیستا ندی اور کالی جھور جھرنے کا ذکر بطور علامت کے استعمال ہوا ہے جوبدلتے وقت و تہذیب کے غماز ہیں۔جس طرح ندی اپنی روانی سے خاموش بہتی ہوئی پہاڑوں، جنگلوں اور شہروں سے ہوتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے اسی طرح وقت بھی آگے بڑھتا ہوامختلف تہذیبوں کو جنم دیتا ہواسبھی کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔وہی سماج مضبوط ہوتا ہے جو اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت کو برقراررکھتا ہے۔

’’شہرذات‘‘  ۲۰۲۲ءکی تخلیق ہے جس کی بنت میں شاہد اختر نے کل ۲۰۲ صفحات کا استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سمند ر کو کوزے میں سمونے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ناول کو اپنے والدین کے نام منسوب کیا ہے۔اس میں ناول نگارنے کلیدی کردار خرم کے حوالے سے عہد جدید کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔ اس میںرشتوں کا تقدس اور بنتے بگڑتے حالات کو یوں پیش کیا ہے کہ موجودہ ہندوستان کی مکمل تصویر قاری کے سامنے عیاں ہوجاتی ہے۔ اس میں خانگی بحران، اقتصادی زبوں حالی،رشتوں کے تصادم اور ماب لنچنگ کو افسانوی قالب میں ڈھال کراپنی فکشن فہمی کا پختہ ثبوت دیا ہے۔وقت کی بدلتی دھارا نے لوگوں کی ذہنیت بھی یکسر تبدیل کر دی ہے۔ ایک طرف جہاں بھائی بھائی دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے وہیں دوسری طرف بھائی بھائی کے سایہ سے بھاگتا نظر آتا ہے، جہاں ایک پڑوسی تمام تفریق کو بھلا کر دوسرے پڑوسی کے سکھ دکھ میں ساتھ دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے وہیںدوسری جانب پڑوسی پڑوسی کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہو رہا ہے۔یہ ناول گویا کہ تہذیب کا نوحہ ہے، انسانیت کا المیہ ہے۔بدلتے زمانے کی فضا نے انسانی اقدار کو بھی پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔انسان اتنا خود کفیل ہو گیا ہے کہ اسے اپنی زندگی اور آمدنی کا تصرف اوروں پر گراں گزرنے لگا ہے۔اپنے بیوی بچوں میںوہ اس طرح پھنس گیاہے کہ اس کے لیے شادی ، خاندان سب چیزیں ایک چیلنج ہو چکی ہیں۔ وہ اس بات کو فراموش کر چکا ہے کہ اگر معاشرے سے اخوت و مساوات کو نکال دیا جائے توخود وہ بھی ذہنی تنائو اور الجھن میں مبتلا ہو جائےگا، لیکن تشفی کی بات یہ ہے کہ اتنے خلفشار وبحرانی کیفیت کے باوجود بھی سماج میںچند ایسے لوگ بھی ہیں جو انسانیت کے پرستار ہیںاور جن کا کردار معاشرے و خاندان کے لیے ایک مثالی نظر آتا ہے انہی کرداروں میں خرم، جمیلہ چچی اور اوجھا کے نام نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔

مذکورہ بالا ناولوں کے علاوہ بھی کئی ایسے ناول ہیںجنہوں نے اردو فکشن میں گراں قدر اضافے کیے،مثلاً غضنفر کا ناول ’’دوّیہ بانی‘‘،خالدہ حسین کا ’’کاغذی گھاٹ‘‘ ، صدیق عالم کا ’’چارنک کی کشتی‘‘، ترنم ریاض کا ’’برف آشنا پرندے‘‘، پیغام آفاقی کا ’’پلیتہ‘‘،شائستہ فاخری کا ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘، رحمٰن عباس کا ’’زندیق‘‘، اختر آزاد کا ’’لاک ڈائون تھری سکسٹی‘‘، اسلم جمشید پوری کا ’’دھنورا‘‘ وغیرہ ۔یہ سبھی ناول ۱۹۸۰ء کے بعد کی تخلیق ہیں جن کا فرداً ًفرداًتجزیہ میرے لیے ایک دشوارکن امر تھا پھر بھی جن ناولوں کو میں نے شامل کیا ان میں چند کا مختصرجائزہ لینے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔در اصل یہ عہدجس میں ہم اس وقت سانس لے رہے ہیںانسانی تہذیب کی پوری تاریخ میں سب سے پیچیدہ عہد ہے۔یہ عہد پیچیدہ اس معنی میں ہے کہ یہ ایک عبوری دور ہے جہاں کسی چیزکو استحکام نہیں ہے۔اقدار،نظریات، طرززندگی، آداب واطواراور انسانی رویے کوئی چیز بھی مستحکم نہیں ہے۔تغیر پذیری یوں تو ہر عہدکی خصوصیت ہوتی ہے کیوں کہ وقت کوئی جامد شے نہیں ہے۔یہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے لیکن اس عہدمیں تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہے کہ ہم اکثر متحیر بلکہ مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔جب ہم ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں سب میں عہد بہ عہد ، مسائل اور فکرو فن کے اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ 

rrr

 

مآخذ ومراجع

(۱)         ’’برصغیر میں اردو ناول‘ ‘ خالد اشرف،ص:۴۹-۵۰، کتابی دنیا، دہلی،  ۲۰۰۳ء

(۲)        معاصر اردو افسانہ کے تہذیبی وسماجی سروکار‘، انور پاشا، کتابی سلسلہ،۷،نیا سفر ، دہلی   

(۳)          ’’ندی تجزیاتی مطالعہ‘‘، انیس رفیع،ص:۹۰-۹۱قنبر علی، ایضاً

(۴)        ناول ’’فائرایریا‘‘ الیاس احمدگدی، ص:۱۵۳،۱۹۹۶ء

(۵)        مقدمہ، ناول ’’ آنکھ جو سوچتی ہے‘‘ کوثر مظہری، ص:۱۱، ۱۹۹۹ء

(۶)        وارث علوی ، منتخب مضامین،ص:۷۱، فضل سنز، کراچی، ۲۰۰۳ء

(۷)        مجتبیٰ حسین،ماہنامہ’روبی‘مختصرکہانی نمبر، ص:۷۷، دہلی ، اپریل۱۹۸۷ء

(۸)        انیس امروہوی،  Back pageناول، ’’بساط‘‘۲۰۰۰ء

(۹)        محمد سلیم فواد کندی ، سہ ماہی ’آبشار‘،ص:۶۱، کندیاں ،میاں والی،پاکستان، جنوری؍ ۲۰۱۷ء

(۱۰)       ناول’’نعمت خانہ‘‘، خالد جاوید، ص:۷۱،۲۰۱۴ء

(۱۱)        ناول ’’ہجور آما‘‘ شبیر احمد،ص:۸۷،۲۰۲۰ء

 

 

———————————

معرفت جہانگیرخاں، اسلام ٹولی، نزد جھنڈا مسجد، پوسٹ اینڈ پی ایس اورنگ آباد، اورنگ آباد-824101

موبائل: 9835938234

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...