Tuesday, July 11, 2023

جنوں کی با تیں

جنوں کی باتیں

بیگم طیبہ قدوائی

کمپیوٹر چلانا آتا ہے؟  آتا ہی ہوگا پچھلی دو تین دہائیوں سے تم لوگ اسکول میں ہی کمپیوٹر چلانا سیکھ لیتے ہو۔ کمپیوٹر کام اس طرح کرتا ہے جیسے چراغ کا جن! تم کو معلوم ہے کہ لوگ کہتے ہیں چراغ جلتے تھے پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی۔ کسی کسی چراغ میں جن قید ہوتے تھے۔ چراغ کو رگڑ لو تو جن حاضر ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا حکم ہے میرے آقا؟ ان سے جو کام کہو منٹوں میں کردیتے تھے۔ اسی طرح آج کل کمپیوٹر ہے۔ منٹوں میں بہت سا کام ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں کس کس کام میں کمپیوٹر کا استعمال ہوتا ہے، مجھے پوری طرح پتہ نہیں ۔ تم نئی پود ہوپتہ چلائو اور استعمال کرو۔ اب تو تمھارے ہاتھ میں فون ہے جو منی کمپیوٹر ہے گوگل ہے جو چاہے پتہ چلا سکتے ہو، لیکن بیٹا کتابیں پڑھنا نہیں چھوڑنا۔

اسکول کی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھا کرو۔ اچھی کتابیں خریدا کرو۔ ہم انسان ہیں مگر مشین بنتے جارہے ہیں،جسے دیکھو وہ فون اور کمپیوٹر میں مصروف ۔ گھر میں لوگ ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے۔ اپنے سارے کام ختم کرکے جلدی سے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا کرو۔ کتابیں تمھارے تصورات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ فون تمھارے دماغوں کو مکمل اپنے قبضہ میں کرتا جارہا ہے۔

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیںبرے بھی اور اچھے بھی ۔ تو تم مشینوں کی غلامی کرنے کے بجائے مشینوں کو اپنا غلام بنائو۔

تم کمپیوٹر جن کو اپنے قبضے میں کرلو اور آرام سے زندگی جیو۔ تم اپنے کام کمپیوٹر سے لو اور خود کو انسانیت کا مرقع بنائے رکھو، انسان بن کر رہو۔

یہاں کشمیری گیٹ پر قدسیہ گارڈن ہے۔ اس سے متصل شہزادی قدسیہ کی بنائی ہوئی مسجد ہے جسے سب جنوں والی مسجد کہتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کیوں تم پتہ چلائو، مجھے بھی بتانا جنوں کے بارے میں ۔

جانتے ہوجن بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ میں نے کتابوں میں جنوں کے بارے میں پڑھا ہے۔ تم بھی کتابیں پڑھا کرواور جب ہم کتابیں پڑھتے ہیں تو اپنے سے بہتر دماغوں کے ساتھ انٹریکٹ کرتے ہیں اور اپنے سے بہتر دماغوں سے سیکھتے ہیں۔ سیکھنے کا عمل ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ اگر زندگی بھرپور چاہیے تو ہر وقت کچھ کرو، کچھ سیکھو۔ فون کے قیدی بننے کے بجائے کھلی ہوا میں آزادی سے جیو۔ میں جھوٹ نہیں بولتی ، مذاق بھی نہیں اللہ کا حکم ہے سچ بولواور پورا تولو۔ مجھے سچ مچ نہیں معلوم کہ جن کیسے دکھتے ہیں۔ میں نے بچپن میں کہانیاں پڑھیں، ان میں جنوں کے فوٹو ہوتے تھے۔ جن کے سر پر سینگ ہوتے تھے۔ اس بات کا بھی پتہ چلائو کہ جن کیسے دکھتے ہیں۔ باقی سب خیر ہے۔ تم دیکھو کیسے ہوگا۔

جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے ساتھ ایک جن بھی دنیا میں آتا ہے جسے قارین کہتے ہیں۔ جن کے اعمال بھی اچھے ہوتے ہیں ورنہ وہ شیطان بن جاتا ہے۔

ایک بچی بہت پیاری تھی مگر جب وہ تھوڑی سی بڑی ہوئی ۳ یا ۴ سال کی تو وہ پاکی کا خیال نہیں رکھتی تھی۔ پیشاب کرکے ایسے ہی بنا طہارت کیے اٹھ جاتی تھی۔ کئی بار اجابت کرکے بھی دھوتی نہیں تھی۔ اس کو کھیلنے کی جلدی ہوتی تھی۔ اس طرح قارین خبیث بننے لگا۔ بچی کی ماں نے اسے سمجھایا کہ صابن سے ہاتھ دھویا کرو، نہاتے ہوئے اور جیسے بھی ممکن ہو صابن سے طہارت کیا کرو۔خبیث جنوں سے الگ رہنے کے لیے پاک و صاف رہا کرو۔

بچی سن لیتی تھی مگر خبیث جنوں کی وجہ سے بھول جاتی تھی۔ اصل میں قارین دوسرے جنوں سے بھی بات کرتے ہیں۔ آپ کے دوست ، رشتہ دار ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح قارین آپ کے بارے میں سب کچھ جان جاتے ہیں۔ آپ کے اندر رہ کر سوچتے اور بولتے ہیں۔ آپ کو عجیب نہیں لگتا اس لیے انھیں اپنے سے الگ کوئی اور نہیں سمجھتے۔ اس طرح دھیرے دھیرے آپ انسان نما شیطان بن جاتے ہیں۔

دنیا میں جتنے انسان ہیں اتنے جن ہیں۔ انسان مرجاتے ہیں مگر جن زندہ رہتے ہیں اور خبیث جن جو بیت الخلا یعنی ٹوائلٹ میں رہتے ہیں ہمیشہ انسانوں کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھو۔

بننا ہے تو کلپنا چائولہ بنو ۔ یاد ہے پنجاب کی وہ لڑکی جو خلا میں گئی تھی یا پھر حضرت رابعہ بصریٰ بنو۔ زمین پر اس طرح جیو کہ زمین پر آب کوثر اور شہد کی نہریں جاری ہوجائیں۔ اس خالق و مالک سے ہر وقت مانگو۔ دنیا مانگنے والے سے ناخوش ہوتی ہے پر وہ خوش ہوکر دیتا ہے۔تم سب اگر ٹھان لو تو دنیا کو جنت بنادو۔

 

H. No. 656, Hamiltan Road,

Delhi-110006

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...