Thursday, August 3, 2023

ارد و کی اولین صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء بیگم امتیاز

ارد و کی اولین صاحب دیوان شاعرہ

لطف النساء بیگم امتیاز

مختارؔٹونکی

سر زمین دکن کو شروع ہی سے یہ امتیاز و افتخارحاصل ہے کہ پہلا صاحب دیوان شاعراورپہلی صاحب دیوان شاعرہ اسی خطہ ٔ اردو میں پیدا ہوئے اور یہیں سے اردوئے معلی نے انگڑائی لے کر ارتقائی منزلوںکا سفر بخیروخوبی ختم کیا۔ ویسے اہل فکر ونظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک عرصہ تک ماہ لقابائی چنداؔ آسمان شاعری پر ہلال نو کی طرح پہلی صاحب دیوان شاعرہ کا لباس فاخرہ پہن کر بصد جمال و کمال چمکتی دمکتی رہیں۔ چنانچہ شاعرات کے کئی تذکروں مثلاً ’’تذکرئہ شمیم سخن‘‘ (محمدعبدالحئی) ، ’’تذکرہ نسوان ہند‘‘ (فصیح الدین بلخی)، ’’بہارستان ناز ‘‘ (ڈاکٹر فصیح الدین رنجؔ میرٹھی)، ’’تذکرۃ الخواتین‘‘ (عبدالباری آسیؔ) وغیرہ میں چنداؔ کو ہی اولیت کا درجہ دیا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کو ’’داستان ادب حیدرآباد‘‘ میں لکھنا پڑا تھا کہ چنداؔ اردو کی پہلی شاعرہ ہے جس نے ایک مکمل دیوان اپنی یادگار چھوڑا ہے۔

واضح باد کہ تخلیق وتفحص کی دنیا میں کوئی چیز، کوئی نام، کوئی فرد حرف آخر نہیں ہوتا ۔بعد کی دریافت وبازیافت نے کماحقہٗ ثابت کردیا کہ لطف النساء بیگم امتیازؔ ہی فی الحقیقت اردو کی پہلی صاحب دیوان ذی شان شاعرہ ہیں۔ ماہ لقابائی چنداؔ حیدرآباد کی آصف جاہی حکومت کے استحکام کے بعدجلوہ گر ہوئیں۔ تحقیق کنندگان نے ان کا سنہ پیدائش ۱۷۶۷ء اورسال وفات ۱۸۳۴ء تحریر کیا ہے۔ دیوان کے مرتب ہونے کا سنہ ۱۲۱۳م ۔۱۷۹۸ء محققوں نے تحریر کیا ہے اورڈاکٹر راحت سلطانہ کے مطابق ہوالالطف الاعظمی سے تاریخی مادہ برآمد ہوتا ہے جبکہ اس ماہ سے ۱۲۱۴ھ کے اعداد ظاہر ہوتے ہیں۔ لطف النساء امتیازؔ نے اپنا دیوان ۳۶ سال کی عمر میں ۱۲۱۲ہجری م ۱۷۹۷ء عیسوی میں پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا تھا یعنی امتیازؔ کوچنداؔ پر بہرحال ایک یا دوسال کی فوقیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ماہر دکنیات نصیرالدین ہاشمی نے کچھ یوں معلومات بہم پہنچائی ہیں:

’’ان کا وطن حیدرآباد ہے۔ امتیازؔ کی والدہ کا بچپن ہی میں انتقال ہوچکا تھا اس لیے نواب حیدرآباد کے شاہی خاندان میں پرورش پائی۔ ان کا نکاح اسدعلی خاں تمناؔ اورنگ آبادی سے ہوا جو ایک معقول اورمقبول شاعر تھے۔ تمناؔ صمصام الملک اور ارسطوجاہ کے درباری شاعر تھے۔  تمناؔ کا تذکرہ ’’گل عجائب‘’ ۱۱۹۴ھ (۱۷۸۰ء) میں لکھا گیا اوران کا انتقال ۱۲۰۴ھ (۱۷۸۹ء) میں ہوا۔ امتیازؔ نے اپنا دیوان ۱۲۱۲ہجری (۱۷۹۷ء) میں مرتب کیا تھا جبکہ ان کی عمر ۶ ۳ سال تھی اس لیے ان کی پیدائش ۱۱۷۶ھ (۱۷۶۲ء) قرار پاتی ہے لیکن ان کے انتقال کا سنہ معلوم نہیں ہوا۔ مذہبی شغف کے لحاظ سے شاہ عطاء اللہ کی مریدہوئی اور حج سے مشرف ہوئی۔‘‘

یہاں پر یہ بھی ملحوظ رہے کہ بقول ڈاکٹر راحت سلطانہ ’’امتیازؔ کا سب سے پہلے تعارف ۱۹۵۷ء میں مولوی نصیرالدین ہاشمی نے کتب خانہ سالارجنگ کی وضاحتی فہرست میں اس طرح کروایا تھا:

’’امتیازؔ دکن کا شاعر ہے، ہم کونہیں معلوم اس کا نام کیا تھا اور کس کا شاگرد تھا کسی قدیم اور جدید تذکرے میں اس کا حال درج نہیں ہے۔ اختتامی شعر میں لفظ کنیز آیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ امتیازؔ کوئی شاعرہ ہو۔‘‘ اسے ادبی ستم ظریفی کہا جاسکتا ہے کہ اسدعلی خاں تمناؔ اورنگ آبادی نے اپنے شعرا کے تذکرے ’تذکرئہ گل عجائب‘ میں بہت سے شعرا نے ہم عصرکا بھی ذکرکیا ہے لیکن اپنی رفیقۂ حیات لطف النساء بیگم امتیازؔ کو اس سعادت شعری سے محرو م رکھا اور خودکو بھی بہ حیثیت شاعر کوئی جگہ نہیں دی:

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے

امتیازؔ کے نام کا راز اس وقت کھلا اور حقیقت اس وقت روشن ہوئی جب ۱۹۶۳ء میں نصیرالدین ہاشمی کوہی ایک نجی کتب خانے میں امتیازؔ کی ایک ضخیم مثنوی ’’گلشنِ شعرا‘‘ دستیاب ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’دکنی کے چند تحقیقی مضامین‘‘ میں اس طرح رقمطراز ہیں:

’’خوش قسمتی سے امتیازؔ تخلص شاعرہ کی ایک ضخیم مثنوی ہوئی ہے جوہمارے دوست سید یٰسین علی خاں صاحب بی اے (علیگ) نبیرئہ امیرشاگرد داغؔ کی ملک ہے۔ اس مثنوی سے جو ’گلشن شعرا‘ سے موسوم ہے واضح ہوتا ہے کہ امتیازؔ تخلص شاعرہ کا نام لطف النساء تھا اور وہ شاہ عطاء اللہ کی مرید تھیں۔‘‘ مثنوی کے درج ذیل سے شاعرہ کے نام وتخلص اورمرشد کا پتہ چلتا ہے:

جو لطف النساء سچ ہے تیرا ہی نام

ترے شعر کا شہرہ تا روم و شام

ترا جو تخلص ہے اب امتیاز

ہے سب اہل ہنروں میں توشاہ باز

عطا وہ کئے معرفت کا کلام

عطاء اللہ سچ مرے مرشد کا نام

حالانکہ مجلہ عثمانیہ کے دکنی ادب نمبر ۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر اشرف رفیع نے ’’اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ‘‘ کے عنوان سے ایک تعارفی مضمون سپرد قلم کیا تھا، ڈاکٹر راحت سلطانہ نے بھی رسالہ ’’نورجنوب‘‘ (۲۰۰۵ء) میں ایک مضمون بعنوان ’’اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء امتیازؔ‘‘ لکھ کر شاعرہ کی روح کو راحت پہنچائی تھی اورخلیل مامون نے رسالہ ’’اذکار‘‘ میں اس کا تذکرہ بخیروخوبی کردیا تھا۔ بہ ایں ہمہ تحقیق کا یہ پہلو بھی بوالعجبی اورغیرمنصفی کی حیثیت رکھتا ہے کہ دکن کے معروف ادیب شاعر اور بزعم خود محقق نے اپنے لحیم وشحیم تحقیق کی کتاب ’’تاریخ ادب اردو تمل ناڈو‘‘ جو شعرا وادبا کا تذکرہ ہے اورجس کا حصہ اول ۱۵۰۴ صفحات پر محیط ہے اور دوسرے حصے میں ۱۱۱۶صفحات پرمشتمل پانچویں باب ’’خواتین تمل ناڈو کی علمی وادبی خدمات‘‘ میں خال خال بھی امتیازؔ کا حال احوال نہیں ملتا۔ نویدی کی ایک کتاب ’’خواتین تمل ناڈو کی روشن تحریریں‘‘ ۲۰۲۰ء میں شائع ہوئی تھی جس میں ۲۳خواتین قلم کاروں کی شعری و نثری خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں بھی امتیازؔ سے اعراض برتا ہے۔ پوری کتاب میں اشیمہ آرکائی کے حوالے سے صرف درج ذیل ایک سطر میں دوصاحب دیوان شاعرات کوخراج تحریر بےتوقیر پیش کردیا ہے:

’’جنوبی ہند کی خواتین شعرا میں لطف النساء امتیازؔ اور مہ لقا بائی چنداؔ صاحب دیوان گزری ہیں۔‘‘

البتہ اسلم مرزا نے اپنی تحقیقی نوعیت کی تالیفی کتاب ’’دکن دیس کی پیش روغزلیں‘‘ میں لطف النساء بیگم امتیازؔ کا ذکر بڑے طمطراق سے کیا ہے اور اس شاعرہ کی تین غزلیں بطور نمونہ درج کی ہیں۔ منکشف ہوکہ اس اولین شاعرہ کے دیوان کا جوقلمی نسخہ کتب خانہ سالارجنگ حیدرآباد میں محفوظ ہے، اس کوڈاکٹر احمدعلی شکیل نے ۲۰۰۴ء میں تحقیقی تدوین کے ساتھ ’’کلیات امتیاز‘‘ کے نام شائع کردیا ہے۔ جس میں جملہ اصناف سخن میں اس شاعرہ کی طبع آزمائیوں کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ دیوان کے علاوہ امتیاز کی ایک مثنوی ’’گلشن شعرا‘‘ بھی ملتی ہے جس میں بقول راحت سلطانہ ’’چھ ہزاراشعار موجودہیں‘‘ اور کلیات امتیازؔ میں تقریباً دوہزار اشعار موجود ہیں جبکہ چنداؔ کے خزینۂ اشعار میں پانچ پانچ شعروں پر مشتمل ایک سوپچیس غزلیات ہیں یعنی مکمل چھ سوپچیس اشعار ان کی تحویل وزنبیل میں ہیں۔

جیسا کہ مذکورالصدر سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اردو فارسی کے قدیم تذکرے نیز ادبی تاریخیں امتیازؔ کے سوانحی کوائف اور واقعات حیات پرروشنی ڈالنے سے قاصر ہیں تاہم شاعرہ کے کلام کی داخلی شہادتوں کی مدد سے اس کے حالات زندگی کا ایک خاکہ بخوبی ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ مثنوی ’’گلشن شعرا‘‘ میں انہوںنے جابجا اشاروں میں اپنی کم نصیبی اور محرومی کی داستان شعربند کی ہے جس کوضبط تحریر میں بہ آسانی لایا جاسکتا ہے۔

لطف النساء بیگم امتیازؔ ایک خوشحال گھرانے کی چشم وچراغ تھیں، آباواجداد باحیثیت اورصاحب جائیداد تھے مگر شوخیٔ قسمت کہ ماں کا سایۂ عاطفت کم سنی ہی میں سر سے اٹھ گیا۔ والدہ کی رحلت کے وقت ان کی عمر صرف پندرہ مہینے تھی۔ لطف النساء کے والد نے اپنی سوا برس کی اولاد سے اس طرح بے لطفی کا مظاہرہ کیا کہ اسے دوسروں کی گود میں ڈال دیا۔ ظاہر ہے کہ شعور و سمجھ آنے پر انہیں قلق ہوا ہوگا کہ وہ نافہمی کی عمر میں اپنے ماں باپ کے علاوہ اعزا و اقارب اور دیگر رشتہ داروں کی سرپرستی، ہمدردی اور شغف و محبت سے محروم رہیں۔ ڈاکٹر مہرجہاں کے مطابق جن لوگوں نے امتیازؔ کو گودلیا تھا وہ لاولد تھے۔ اس لیے انہوں نے بڑے نازونعم سے حقیقی اولاد کی طرح پرورش وپرداخت کا کام سرانجام دیااوران کی ہر خواہش کا احترام کیا ’’گلشن شعرا‘‘ میں حالانکہ امتیازؔ صاحبہ نے منھ بولے ماں باپ کا نام تونہیں لیا لیکن ان کی بار بار تعریف وتوصیف کرکے حق شاعری ادا کیا ہے:

کئے پرورش وہ تو چاہت کے ساتھ

رکھیں دائیاں نیک اور پاک ذات

کئے پرورش وہ جو پالے تھی ماں

زرومال کیا تھا تصدق تھی جاں

نہ اولاد تھی ان کو اور آل تھی

وہ ہوتے تھے صدقے یہ دیکھ بھال تھی

تولے ہاتھوںہاتھ اور جھولا جھلائیں

وہ خود آپ جاگیں سبھوں کوجگائیں

حالانکہ ان کا درد شعر بن کر یوں بھی صفحۂ قرطاس پرمنتقل ہوا:

کہوں کیوںنہ میں جور افلاک سے

چھڑایا یہ ملک اور املاک سے

بہرکیف امتیازؔ کوشاعری سے اس قدر شغف تھا کہ لڑکپن سے ہی شعرگوئی کا آغاز کردیا تھا اوراس کا جواز وثبوت انھوں نے خود پیش کیا ہے:

لڑکپن سے یہ شوق دل نے کیا

یہ کچھ شعر و اشعار کا مشغلہ

پھر یہ ہوا کہ لطف النساء بیگم المتخلص بہ امتیازؔ مسلسل مشق سخن سے دنیائے شعر میں امتیاز وافتخار کی حامل بن گئیں۔ ان کے کلام کا اگربالاستیعاب مطالعہ کیا جائے توقدامت کے باوجود ان کی شاعرانہ خصوصیات بخوبی اجاگرہوںگی۔ باوجودیکہ رنگ وآہنگ میں اس دورکا مروجہ مزاج بولتا نظرآئے گا۔ غزلوں کے موضوعات وہی ہیں جواس زمانے میں طرئہ امتیاز کی حیثیت رکھتے تھے یعنی پوری طرح حسن وعشق کے معاملات کی کارفرمائی ہے تاہم انھوںنے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے جذبات و احساسات کوغزل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ چونکہ وہ دکن کی رہنے والی تھیں اس لیے اشعار میں دکنی لفظیات بھی بے دھڑک استعمال کی ہیں مگران میں بھی طرفہ شاعرانہ سلیقہ ہے۔ مشتے نمونہ ازخروارے چند اشعار ملاحظہ کریںاور یہ بھی ذہن نشیں کریں کہ قدیم عظیم ہے۔ (مروج املے کے ساتھ)

ہائے تصویریں مجھے کیوںا س قدر دکھلائیاں

دل پر اوس نقاش قدرت نے بلائیں لائیاں

دیکھتے ہی مہ و شوں کے، عقل زائل ہوگئی

ناز و عشوے سے ہی جب مے دے مجھے بہلائیاں

کیا ہٹیلا بن گیا طفل دل بہزادرے

دیکھئے تصویر کے کرتا ہے کیا مچلائیاں

اب بہار آنے میں جاکر گلشنوں میں امتیازؔ

گل رخوں نے کیسی چہکیں دھوم دھام پھیلائیاں

 

شعور صحرا میں مرے آنے کی کچہہ دھوم سی ہے

عمل قیس کے اوٹھ جانے کی کچہہ دھوم سی ہے

کشور عشق میں شاہی کا مری ڈنکا ہے

نوبت وصل کے بجوانے کی کچہہ دھوم سی ہے

اب کے میں شورجنوں سے نہیں بچتا یارو

خلق میں میرے جگر کھانے کی کچہہ دھوم سی ہے

ہوغضب پردئہ فانوس میں چھپتی شمع

اوس کے پروانوںمیں جھنجھلانے کی کچہہدھوم سی ہے

 

راست کہہ، رات ترا کس نے مزہ لوٹا تھا

بند قبا کے تھے کھلے، ہار گلے ٹوٹا تھا

شیشہ گر نے جو لیا مج سے بنانے اک دن

ہاون عشق میں جب رکھ کے اسے کوٹا تھا

امتیازؔ آہ وہ کافر نے جلا خاک کیا

گلشنِ عشق کا جو دل میں گل و بوٹا تھا

یہ اشعار ہمیں باورکراتے ہیں کہ امتیازؔ اپنے شوہر اسدعلی خاں تمناؔ اورنگ آبادی کی طرح ایک خوش فکر شاعرہ تھیں۔ اپنے اظہار شعری میں امتیازؔ نے سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔ کہیں بھی پیچیدگی اور ابہام کا احساس نہیں ہوتا۔ غزلوں کا اگرچہ رنگ قدیم ہے، مگران میں بھرپور غنائیت ہے جو قاری کے دل ودماغ پراچھا تاثر چھوڑتی ہیںاوریک گونہ طمانیت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ جہاں تک دکنی زبان کے اثرات کا سوال ہے وہ جس ماحول میں پلیں، بڑھیں اس سے گریز وہ بھلا کیسے کرتیں۔ ویسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دکنی لب ولہجہ اورزبان وبیان کے اثرات تو میرؔ وسوداؔ کے اشعار میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طورپر امتیازؔ کی ایک غزل میں دکھلائیاں، لائیاں وغیرہ قافیوںکا التزام کیا گیا ہے اور مرزا محمدرفیع سوداؔ کا مشہور شعر ہے:

بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں

طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں

لطف النساء املے امتیازؔ نے اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمدعلی قطب شاہ کی طرح متعدد مسلسل اورمربوط غزلیں بھی یادگار چھوڑی ہیں جن میں محاکات اور منظرنگاری کی جھلکیاں بھی بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اردوکی دوسری صاحب دیوان شاعرہ مہ لقابائی چنداؔ کو بمقابلہ امتیازؔ اس لیے زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ ایک طوائف تھی اورنظام الدولہ آصف جاہ والی حیدرآباد کی نظرکرم کی وجہ سے معروف ہوگئی تھی۔ چنداؔ کے مقابلے میں امتیازؔ کواس لیے بھی اہمیت دی جاسکتی ہے کہ ان کا کلام کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ہمہ جہت اور متنوع خصوصیات کا حامل ہے۔ سادگی، بے ساختگی اورطرفگی امتیازؔ کی غزل گوئی کا خصوصی وصف ہے۔ چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں:

جاتی ہے جان تن سے نکل اب توآئیو

قاتل خدا کے واسطے ٹک منھ دیکھائیو

 

میں نے شکوہ نہ کیا اپنی زباں سے یارو

دیکھ روتے ہیں سبھی، حال پریشاں میرا

 

اے امتیازؔ دشمن گرچہ ترا فلک ہے

لازم تجھے ہے دل میں ہرگز نہ رکھیو کینہ

عبارت مختصر، تاریخ ادبیات اردو کا المیہ یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے کچھ خلائیں چھوڑتی آرہی ہے جنھیں پر کیا جانا ضروری ہے۔ امتیازؔ جیسی لائق وفائق شاعرہ کو نظرانداز کیا جانا تحقیق کی نارسائی کی دلیل ہے۔ اس کا تدارک بھی بہرحال لازمی ہے اوریہ کام آج کے محقق بخوبی کرسکتے ہیں۔

....

کالی پلٹن روڈ، پل محمد خاں،

 ٹونک-304001(راجستھان)

موبائل:  9214826684

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...