Thursday, August 3, 2023

تحریک آزادی او ر اردو کے چند مجاہد شعرا

تحریک آزادی او ر اردو کے چند مجاہد شعرا

ڈاکٹر علی احمد ادریسی

عام خیال ہے کہ اردو شاعری محض تفریح کا سامان پیدا کرتی ہے اور اس کی تمام کار گزاریاں محفلوں اور مشاعروں تک محدود ہیں مگر حقیقت اس کے پرے ہے ۔اردو شاعری نے ہر دور اور عہد میں عوام الناس کے درمیان ان میں حوصلہ اور ولولہ انگیزی پیدا کی ہے، تحریکات کو جنم دیا ہے اور بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں ۔تحقیق سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ عظیم میں کم سے کم تین سے چار سو شاعروں نے بہ نفس نفیس حصہ لیا تھا ۔یہ سلسلہ آئندہ آنے والے ادوار میں بھی جاری رہا ۔اس مختصر مضمون میں ان چند شعرا کا ذکر اور ان کی شاعری کی خصوصیت بیان کی جائے گی جنھوں نے آزادی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور آزادی کی تحریک سے زندگی کی شام ہونے تک جڑے رہے۔

جنگِ آزادی کے حوالے سے ہم جب اردو شعر وادب نیز اس تحریک سے وابستہ ادبا وشعرا صحافت کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے ان آزادی کے متوالوں کا ذکر کرتے ہیں یا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ جنگِ آزاد ی کی تحریک کو منظم ومستحکم بنیادیں فراہم کرنے سے لےکر حصولِ آزادی تک ان لوگوں نے نمایاں خدمات انجام دیں ۔واقعہ یہ ہے کہ جنگِ آزادی کی تحریک کو اردو ادب سے علیحدہ کرکے حقیقی معنوں میں پوری طرح سمجھا ہی نہیں جاسکتا اس وقت کی اردو صحافت اور اردو شاعری میں جنگ ِ آزادی کی تحریک نے جس طرح بنیادی رول ادا کیا ہے وہ اردو صحافت اور ادب کا انتہائی تابناک پہلو ہے ۔ہندوستان کا پہلا شہید صحافی بھی اردو ہی کی جماعت سے ہے جو تاریخ میں مولوی محمد باقر کے نام سے مشہور ہے ۔جنگِ آزادی میں اردو شاعری کے کردار کے حوالے سے جب ہم اردو شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلا نام مصحفی کا آتا ہے جنہوں نے فرنگیوں کے ظلم واستبداد ، ان کی عیاریوں ، مکاریوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی ۔

ہندوستان کی دولت وحشمت جو کچھ بھی تھی کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی۔ ۱۸۵۷ء میں قتل وغارت گری کا جو سلسلہ شروع ہو ااس سے غالب بھی تڑپ اٹھے۔ ان حالات کا ذکر انہوں نے اپنے ایک قطعے میں بڑے ہی پرسوز طریقے سے پیش کیا ہے، اس سے ان کے روحانی اور ذہنی کرب و ابتلا کا اظہار ہوتا ہے ۔

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

حکیم مومن خان مومن بھی جنگِ آزادی کی اس تحریک سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک مثنوی ’جہادیہ ‘میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے :

الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب

یہ افضل ہے افضل عبادت نصیب

یہ دعوت ہر مقبول درگاہ میں

مری جاں فدا ہو تری راہ میں

میں گنجِ شہیداں میں مسرور ہوں

اسی زخم کے ساتھ محشور ہوں

حالی اور آزاد کا تعلق براہِ راست اگرچہ تحریک آزادی سے نہ تھا پھر بھی ان دونوں بزرگوں نے جس انداز اور لے کی قومی اور وطنی شاعری کو رواج دیا اور ہندوستانی قوم میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کیے، اس سے بھی ہندوستانی قوم کے دلوں میں وطن سے محبت کے جذبات بیدار ہوئے ۔نتیجتاً عوام الناس میں غلامی کا احساس جاگا اور حصولِ آزادی کا جذبہ دلوں میں پیدا ہوا ۔ اس سلسلے میں ان دونوں بزرگوں کی نظمیں’ حبِ وطن‘ دلیل کے طور پرپیش کی جاسکتی ہیں ۔شبلی کی سیاسی نظموں کو بھی اس سلسلے کی کڑی سمجھنا چاہئے ، جن میں فرنگیوں کے خلاف احتجاج کی زیریں لہریں محسوس کی جاسکتی ہیں ۔شبلی کی سیاسی نظموں میں ’احرار قوم‘ اور ’طفل سیاست‘، ’شہرآشوب اسلام ‘،’علمائے زندانی ‘’ہم کشتگانِ معرکہ کانپور میں ‘،’خون کے چند قطرے‘ ،’گنج ہائے گراں مایہ‘وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دینے اور ہندوستانی قوم میں حریت کا جذبہ پیدا کرنے کے سلسلے میں تحریر کردہ شبلی کی نظم ’احرارِ قوم‘ اور طفلِ سیاست اپنی مثال آپ ہیں ۔ آزاد، حالی اور شبلی کے بعد اسماعیل میرٹھی ،سرور جہاں آبادی ، اکبر الہ آبادی ، چکبست وغیرہ ایسے نامور شعرا ہیں جن کی نظموں میں جسم وجاں کی آزادی کے ساتھ ساتھ حریت ذہن وفکر کو پیغام بھی ملتا ہے کہ آزادی کس قدر عظیم نعمت ہے۔ بقول اسمٰعیل میرٹھی :

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو وہ خوف وذلت کے حلوے سے بہتر

یقیناً اس قسم کے پیغام سے جسم وجاں کو قید کرنے والے طوق وسلاسل ہی کو نہیں بلکہ ذہنی وفکری غلامی کی زنجیریں کاٹ پھینکنے کے جذبات بھی پروان چڑھیں گے ۔ ہندوستانی قوم کو ذہنی اور فکری غلامی سے آزادی دلانے میں اکبر الہ آبادی کی طنز وظرافت سے معمور شاعری نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ سرو ر جہاںآبادی نے جہاں حب الوطنی کے پیغام سے معمور نظمیں لکھ کر وطن دوستی کے جذبا ت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، وہیں فکرو نظر کی آزادی کا درس دینے والی نظمیں بھی کہی ہیں ۔

اقبال کی بیشتر نظموں میں یورپ کی ذہنی وفکری غلامی سے آزادی نیز حیاتِ انسانی کے لیے نویدِ نو کا پیغام ملتا ہے۔ قومی یکجہتی اور حب الوطنی سے لبریز نظمیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ان میں سے بعض نظمیں آزادی کے متوالوں میں گاندھی ، نہرو جیسے اکابر شامل تھے ان کی زبانوں پر رقص کرتی تھیں ۔ ان نظموں نے اتحادویکجہتی کی ایک نئی مثال قائم کی اور آزادیٔ وطن کی تحریک کو تقویت دینے میں اہم رول ادا کیا ۔ اقبال نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے ایشیا کی آزادی وبیداری کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام تر مشرقی ممالک یورپ کے ظلم واستبداد سے آزاد ہوں۔ ان کی متعدد نظمیں جن میں ’ہمالہ ‘،’ترانۂ ہندی ‘،’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘،’پرندے کی فریاد‘،’جاوید سے خطاب‘،’خضر راہ ‘،’شعاعِ امید‘،’نیا شوالہ‘،’آزاد اور محکوم ‘، ’آزادی اور الہام‘،’بیداریٔ ایام‘،’خواجگی‘،’غلاموں کی نماز‘،’نفسیات ِ غلامی ‘وغیرہ شامل ہیں ۔ ان تمام نظموں کو ہمیں جنگِ آزادی کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔ پرندے کی فریاد اگرچہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے مگر آزادیٔ وطن کے تناظر میں اس کا مطالعہ کیا جائے تو اسیری کا کرب اور آزادی کا کیف اس نظم سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اقبال نے اپنی مختلف نظموں میں غلامی کی لعنت اور نحوست اور آزادی کی نعمت وبرکت پر پُر جلال اور پُرتاثیراسلوب میں اظہارِ خیال کیا ہے اور غلام قوموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اٹھو اپنی غیرت اور عزتِ نفس نیز پیدائشی حقِ آزادی کے حصول کے لیے پورے خلوص کے ساتھ تن من دھن کی بازی لگاؤ ۔ ہندوستان کی جنگِ آزادی کی تحریک میں اقبال کے پُر جلال وپُر جمال اور دلنشیں کلام کے کردار کو زریں حروف سے لکھا جائے گا۔

مولانا محمد علی جوہر ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک سیاسی، رہنما، مدبر ،صحافی اور سماجی کارکن نیز تحریک آزادی سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار ، شاعر، صحافی ،مقرر اور مؤرخ تھے ۔وہ ہر رنگ میں یکتا ویگانہ تھے ۔ وہ ادب کو قومی مقاصد میں استعمال کرنے کے قائل تھے ۔ ان کی تمام تحریریں خواہ وہ منظوم ہو ں یا منثور جذبۂ حریت سے لبریز نظرآتی ہیں اور ان میں ادبی عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ وہ ایک بہترین خطیب بھی تھے ۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خطاب کرتے تھے ۔ وہ انگریزوں کی ملازمت کے خلاف تھے لہٰذا اپنی ہر تقریر وتحریر میں وہ اس بات کا عندیہ دیتے تھے کہ اگر ہندوستانی قوم انگریزوں کی ملازمت ترک کردے تو انگریرکمزور پڑ جائیںگے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ۱۹۲۱ء میں کراچی میں خلافت کمیٹی کے بینر تلے ایک جلسے سے خطاب کیا اور قرار داد پیش کی جس میں اپیل کی گئی تھی کہ انگریزی حکومت کی ملازمت ترک کی جائے، اس ضمن میں ان پر مقدمہ چلا اور دوسال کی سزا ہوئی ۔ انھوں نے مختلف شہروں اور خانقاہوں کی جانب رجوع کیا اور ان میں بیٹھے سنیاسیوں ،صوفی، سنتوں، عالموں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے درد مندانہ اپیل کی کہ ملک کو آپ کی ضرورت ہے ۔لہٰذا آپ سبھی خود کو گوشۂ تنہائی سے نکالیں اور ملک کی جنگ آزادی کی تحریک میں حصہ لیں چنانچہ اس کا اثر ہوا اور بہت سارے صوفیا ،علما ،سادھو سنت سنیاسی جنگ آزادی میں شریک ہوگئے ۔مولانا جوہر کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس ،آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک خلافت جیسی تین اہم جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ملک کی آزادی کے لیے جنگ لڑی ۔ ان کی زندگی کا اولین مقصد صبح آزادی تھی، ان کے خواب میں متحدہ اور سالم ہندوستان تھا۔ وہ کانگریس کے صدر بھی رہے اور اپنی ہر تقریر میں لوگوں کو آگاہ کرتے رہے اور انھیں شریک تحریک آزادی کرتے ۔ گاندھی جی اعتراف کرتے تھے کہ محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی نے پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔ ترک موالات کے سبب انھوں نے علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام کیا جو بعد میں دہلی منتقل ہوئی ۔ آزادی کا خواب لے کر وہ لندن میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے اور اعلان کیا کہ میں غلام ملک میں مرنا پسند نہیں کروں گا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر ہی واپس جاؤں گا۔ مشیت ایزدی کے مطابق ان کا انتقال لندن میں ۱۹۳۱ء کو ہوا اور بیت المقدس میں نبیوں کے گہوارے میں مدفون ہوئے:

وقار خون شہیدان کربلا کی قسم

یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے

یاد وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور

جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور

ادب اور سماج کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ خاص طور سے بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی استوار ہوتا گیا جبکہ انگریز وں کے ظلم وستم اور بربریت اپنی انتہا پر تھی ۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی او ر شبلی دو ایسے شاعر ہیں جنھوں نے ملک کی یکجہتی اور حب الوطنی کا اظہار سب سے پہلے کیا :

بیٹھے ہیں فکر کیا ہو ہم وطنو

اٹھو اہل وطن کے دوست بنو

تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر

نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

ملک ہیں اتفاق سے آزاد

شہر ہیں اتفاق سے آزاد

قوم جب اتفاق کھو بیٹھی

اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی

پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اور قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ جہدِ آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چل رہی تھی، ان کی تمام تر تخلیقات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس امر کی تشفی ہوجاتی ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہوکر کہی گئی ہیں ۔ بیشتر نظموں میں آزادی کے مجاہدین کی ہمت وحوصلہ کو بڑھانے کی کوشش نظرآتی ہے ۔اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں :

بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤ ہشیار

اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار

اگر پڑے رہے غفلت کی نیندمیں سرشار

تو زیر موج فنا ہوگا آبرو کا مزار

مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا

جہاں میں بھیشم و ارجن کا نام ڈوبے گا

اسی طرح مسلم نوجوانوں سے خطاب کرتے ہیں:

دکھادو جوہر اسلام اے مسلمانو

وقار قوم گیا قوم کے مسلمانو

ستون ملک کے ہر قدر قومیت جانو

جفا وطن پہ ہے فرض وفا کو پہچانو

نہیں خلق ومروت کے ورثہ دار ہو تم

عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم

یہ ایک طویل نظم ہے جس کا عنوان ’’انجمن طلبا اسلام کے جوانو‘‘ ہے۔ یہ نظم پوری طرح سے جوش وخروش میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ ہوم رول کے متعلق چکبست کی ایک اور شاہکار نظم ہے، جس میں وہ کہتے ہیں :

یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا

رگوں میں خون کی حرارت مٹا نہیں سکتا

یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا

دلوں میں آکے یہ ارماں جگا نہیں سکتا

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

اس دور کے مجاہد شعرا میں مولانا حسرت موہانی کا نام بہت اہم ہے ۔بنیادی طور پر وہ غزل گو شاعر تھے، بیسویں صدی کے اوائل میں جن شعرا نے اردو عربی کو ایک نئی جہت نیز طاقت وتوانائی بخشی ان میں حسرت کا نام سرفہرست ہے۔ حسرت ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے۔ایک جانب وہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کررہے تھے تو دوسری جانب عوام الناس کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے تھے اور انگریزوں کی ہر قسم کی مکروچال سے باخبر کررہے تھے۔

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جائے

واللہ کبھی خدمت انگریز نہیں ہوگی

حسرت کی آزادی کے تئیں جہد محض خیالات اور جلسے جلوسوں تک محدود نہیں بلکہ وہ عملی طور پر جی جان کے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔ انھوں نے کانگریس مسلم لیگ اور جمعیۃ علما کی رکنیت حاصل کی، بعض وجوہ کی بنیاد پر ان سے الگ بھی ہوگئے ۔ مکمل آزادی کا ریزولیوشن (Resolution) سب سے پہلے اس مجاہد نے پیش کیا جبکہ اس وقت اس کا تصور محال تھا۔ وہ ایک بے باک صحافی تھے اور اپنے زور قلم کو ملک کی آزادی کے لیے وقف کررکھا تھا ۔ وہ متعدد بار جیل بھی گئے مگر ان کے صبرواستقلال کو انگریز حکومت لرزنہ سکی اور نہ ہی ان کے خیالات میں کسی قسم کی تبدیلی لاسکی:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

حسرت کوتو اپنے اصول بہت پیارے تھے۔ وہ اترپردیش اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور ملک کی پارلیمنٹ میں بھی پہنچے مگر کبھی سرکاری رعایت کو قبول نہیں کیا۔ حسرت کی شاعری کا بڑا حصہ جیل کا ہے۔ وہ متعدد جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے اور آزادی کی شمع کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا ۔ علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل ،نینی سینٹرل جیل ، فیض آباد جیل ، بڑودا سینٹرل جیل کے علاوہ موہان اور کھوڑ میں بھی ان کی نظر بندی رہی ۔

اپنی شاعری کی بدولت جن شعرا نے انگریزی حکومت کو چیلنج کیا اور ان کے جابرانہ نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی ان میں ایک اہم نام جوش ملیح آبادی کا بھی ہے۔ انگریزوں کے خلاف ان کے جذبات آتش فشاں کی مانند پھٹے پڑتے ہیں ۔ اس سے ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبریں

اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

کیا ان کو خبر تھی سپنوں سے جو خون چرایا کرتے تھے

ایک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں

انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم ’نعرۂ شباب‘ میں ملاحظہ کیجیے:

دیکھ کر میرے جنوں کو ناز فرماتے ہوئے

موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے

پھر اٹھوں گا ابر کی مانند بل کھاتا ہوا

گھومتا گھرتا گرجتا گونجتا گاتا ہوا

ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا

موت کے سائے میں رہ کر موت پر چھایا ہوا

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

مجاز نے اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نوعمری ہی میں ایک الگ پہچان قائم کرلی تھی۔ آزادی کی جدوجہد جس قدر تیز ہوتی گئی، اردو شاعری کے تیور میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں اور وہ آگ سے جوالہ بنتی گئی ، مجاز کی نظم انقلاب سے ان کے مشہور کا مشاہدہ کیجئے ۔

آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے

آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے

کوہ صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی

رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی

سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی

ہر طرف یلغار کرتی ہرطرف بڑھتی ہوئی

خون کی ہولی کے جنگل سے ہوائیں آئیں گی

خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی

علی سردار جعفری کا تعلق ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں سے ہے۔ان کی بیشتر نظموں میں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے اور آزادی حاصل کرنے کا پیغام پوشیدہ ہے۔ ان کی مثنوی ’جمہور‘ اس حقیقت کی غمازہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف طبقات اور مختلف علاقوں سے مخاطب ہوکر غلامی کی زنجیروں سے نجات پانے کا پیغام دیا ہے :

اٹھو ہندکے باغبانو اٹھو اٹھو انقلابی جوانو اٹھو

کسانو اٹھو کامگارو اٹھو نئی زندگی کے شرارو اٹھو

اٹھو کھیلتے اپنی زنجیر سے، اٹھو خاک بنگال کشمیر سے

اٹھو وادی و دشت و کہسار سے،اٹھو سندھ وپنجاب و ملبا ر سے

جن مذکورہ شعرا کی تخلیقات سے جنگ آزادی کی مثالیں پیش کی گئیں ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہد آزادی میںبرسرِ پیکار رہنے کی دعوت دی، بلکہ ان میں زیادہ تر شعرا اس آزاد ی کی تحریک میں وہ خود بھی بہ نفس نفیس شامل ہوئے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا ۔تقسیم بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ یا کوئی ایسی تحریک نہیں جس میں شامل ہونے اور انگریز مخالف آواز کو تیز سے تیز کرنے کے لیے اردو شاعری نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔ بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر آزادیٔ وطن تک بے شمار اردو شعرا نے لاتعداد ایسی نظمیں لکھیں جو غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پھینکنے اور باقاعدہ آزاد زندگی گزارنے کا پیغام دیتی ہیں ۔ ان تمام نظموں سے تحریک آزادی کو نہ صرف تقویت حاصل ہوئی بلکہ یہ تحریک کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئی۔ اس تحریک کو اس کے انجام تک پہنچانے میں اردو شاعری نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے شاید کوئی دوسری زبان اس کے ہم پلہ نہ رکھی جاسکے ، نیز تمام اردو داں طبقہ کو فخر حاصل ہے کہ اس اردو زبان وادب نے تحریک آزادی کے ضمن میں انتہائی عظیم الشان اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے ۔

...

شعبۂ اردو ،دہلی یونیورسٹی ،دہلی

موبائل:9891129956


 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...