Thursday, August 3, 2023

نقیب آزادی ہند : مولانا برکت اللہ بھوپالی

 نقیب آزادی ہند : مولانا برکت اللہ بھوپالی

غلام علی اخضر

 

تمام مذاہب اور فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لہٰذا آزادی اس کا پیدائشی حق ہے۔اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کا جذبہ اور خواہش انسان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتے ہیں اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب اور جہاں جابر حکمرانوں یا طاقتور اقوام نے انسانوں کے کسی کمزور گروہ یا کسی پسماندہ خطے کو ملک گیری کی ہوس میں غلام بنایا تو وہاں جذبۂ حریت سے سرشار ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے تحریروں ، تقریروں اور مجاہدانہ سرگرمیوں کی تحریک چلا کر اپنی آزادی کی بازیافت کی اور آزادی کے لیے اپنی اس جدو جہد میں نہ انھوں نے اپنے خاندان کی پروا کی نہ اپنی جان کی۔ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں بھی ایسے بے شمار نام ہیں جنھوں نے آزادی کو اپنا نصب العین بنا کر ایسی تحریکیں چلائیں کہ انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام کی چولیں ہل گئیں اور وہ لوگ جو فخر سے کہتے تھے کہ ہماری سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا وہ سر نیہوڑاکر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ان آزادی کے متوالوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کی محنت ،جدو جہد اور جاں نثاری سے ہندوستانیوں کا اپنی آزادی کے لیے دیکھا ہوا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ۔ انگریز ہندوستان میں تاجر بن کر آئے تھے لیکن اپنی شاطرانہ چالوں سے انھوں نے اندر ہی اندر مغلیہ سلطنت کو گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا اور پھر ایسا وقت آیا جب پورا ملک تاجِ برطانیہ کے زیرِ نگیں ہو کر برطانوی نوآبادیاتی نظام کا حصّہ بن گیا۔حکومت پر قابض ہوتے ہی ہندوستانی رعایا کی حمیت تارتار ہونے لگی اور غلامی کا طوق ان کے گلے میں پڑ گیا ۔ ہندوستان انگریزوں کے آنے سے قبل سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اسی شہرت نے بعض یورپی اقوام جیسے انگریزوں ، فرانسیسیوں اور پرتگا لیوں کی توجہ اور حرص اپنی جانب منعطف کی۔ملک گیری کے اپنے ناپاک ارادوں میں انگریز کامیاب ہوئے اور حاکم بن کر انھوں نے سونے کی اس چڑیا کو ہر جانب سے نوچنا شروع کردیا۔ لیکن تاریخ اس کی بھی گواہی دیتی ہے کہ انگریزوں کے برسرِ اقتدار آتے ہی ہندوستانی غیرت اور قومی حمیت جوش میں آ گئی تھی اور ہزاروں جیالوں نے آزادی کا حسین خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان عاشقانِ آزادی میں ایک اہم نام برکت اللہ بھوپالی کا ہے جو اپنے نام سے پہلے انھیں دیے گئے اعزازی سابقے ’مولانا‘کے ساتھ مولانا بھوپالی نام سے مشہور ہوئے ۔ انھیں ممتاز ترین مجاہدینِ آزادی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں،زبان دانی،سیاسی تحریکوں اور آزادیٔ وطن کے لیے کئے گئے ان کے کاموں کی فہرست ناقابلِ یقین حد تک طویل ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ مولانا بھوپالی کے والد ماجد بہت بڑے عالم تھے اور ان کا آبائی وطن اترپردیش کا بدایوں تھا لیکن اٹھارہ سو ستاون کی تحریکِ آزادی کے نتیجے میں جو قتل وغارت اور تباہی ہوئی اس کی زد میں آ کر انھیں بدایوں چھوڑنا پڑا اور وہ ریاست بھوپال کے سیہور میں آ کر قیام پذیر ہو گئے۔رفتہ رفتہ ان کی علمیت کا شہرہ بھوپال تک پہنچ گیا اور نواب سکندر جہاں بیگم نے ان کو بھوپال بلا لیا۔بھوپال میں ہی سات جولائی اٹھارہ سو چون کو عبد الحافظ محمد برکت اللہ کی ولادت ہوئی۔مولانا بھوپا لی کی تاریخ پیدائش  کے سلسلے میں تھوڑا سا تنازع پایا جاتا ہے۔

ملارموزی نے ’’مشاہیر بھوپال‘‘میں ان کی تاریخ پیدائش7جولائی ۱۸۵۴ء، ایم عرفان نے اپنی کتاب ’’برکت اللہ بھوپالی‘‘میں ۱۸۵۹ء اور قاضی وجدی الحسینی نے’’انقلابی سوانح:مولانا برکت اللہ بھوپالی‘‘ میں، ۱۸۶۲-۱۸۶۳ء درج کی ہے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم بھوپال میں ہی حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جبل پور اور ممبئی گئے۔دورانِ طالب علمی انھوں نے انگریزوں کے ظالمانہ طرزِ حکومت کا احساس کر لیا تھا اور ان کے دل و دماغ میں آزادی کی خواہش بڑی شدت سے پرورش پانے لگی تھی۔ انھوں نے جلدہی یہ سمجھ لیا تھاکہ اس جابر اور طاقتور حکومت کے خاتمے کے لیے صاحب اقتدار کی زبان پر عبور حاصل کرنا، اس کی پالیسی کے خدو خال کو سمجھنا اور اس سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے۔کہا جاتا ہے کہ انسان خواہ کسی قدر بھی روایتی ماحول اور روایتی تعلیم کے زیر اثر پروان چڑھے لیکن اگر اس کی سرشت میں حصول یابی کا خمیر ہواور ذہن جذبۂ آزادی سے معمور ہوتو  وہ کبھی غلامانہ نظام میں سانس لینا گوارا نہیں کرسکتا۔ مولانا نے فیصلہ کیا کہ وہ وطن کی آزادی کی تحریک بین الاقوامی سطح پر چلائیں گے اور اس کے لیے فضا ہموار کرنے کی غرض سے غیر ممالک کا سفر کریں گے۔ اس ارادے نے انھیں ایک ایسی بین الاقوامی شخصیت بخشی جس نے اپنے ملک کی آزادی اور قوم وملت کی فلاح و بہبود کے لیے سفر اختیار کیا اور ایشیا اور یورپ کے چپے چپے کو اپنے مقصد کی حصول یابی کے لیے کھنگال ڈالا۔ انھوں نے ملک کی سربلندی و سرفراز ی کے لیے غیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دیے اور ایک سیکولر نظام کا خاکہ اس وقت پیش کیا جب ہندوستانی عوام کے لیے یہ نظام قطعی اجنبی تھا۔انھوں نے عمر عزیز کے ۴۵سال اس منصوبے میں صرف کئے۔ اقوام عالم کا دورہ کیا تاکہ وطن کی آزادی کے تمام وفا شعاروں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ اس کے لیے انھوں نے لندن،لورپول، نیویارک، ٹوکیو، ہانگ کانگ، شنگھائی، بنکاک، سنگاپور، کولمبو، پیرس، واشنگٹن، فرانسسکو، سیکرامینٹو، آسٹریلیا، جرمنی،ایران،روس،چین،جاپان،وانکوور، برلن، دیانا، بخارسٹ، صوفیہ، قسطنطنیہ، کابل ،ہرات، ماسکو، زیوریخ، لوزان، جینوا،بروسیلز وغیرہ کا سفرکیا اور بڑی پا مردی سے ہر سردو گرم کا مقابلہ کرتے رہے۔۱۹۱۵ میں تو انھوں نے افغانستان جا کر وہاں پہلی جلا وطن حکومت ہندوستان قائم کی ۔راجہ مہندر پرتاپ اس عبوری حکومت کے صدر اور خود مولانا بھوپالی وزیرِ اعظم نامزد کیے گئے۔اس واسطے سے ان کو ہندوستان کا پہلا وزیرِ اعظم بھی لکھا جاتا ہے۔وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اپنی تحریکِ آزادی کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے سربراہانِ ملؤمملکت اور دیگر سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔جن مشہور رہنماؤں سے اس سلسلے میں وہ ملے ان میں قیصر ولیم دوم، عامر حبیب اللہ خان ، محمد رشید غازی پاشا، لینن اور ہٹلر شامل تھے۔

لندن کے گیارہ سالہ قیام کے دوران پروفیسربرکت اللہ بھوپالی نے بہت تجربے حاصل کیے اور اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ روزو شب کام کرنے لگے۔انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ برطانوی سامراجیت سے آزادی کے لیے صرف ملک کے اندرونی عوام کو بیدار کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے، یعنی داخلی اور بیرونی دونوں جانب سے بغاوت کے طوفان درکار ہیں۔مولانا تحریرو تقریر کے غازی تھے۔ جس جانب چل دیتے ہنگامہ بپا ہوجاتا۔ لوگوں میں حریت کا جنون چڑھ جاتا۔وزیر اعظم گلیڈسٹون کی تقریر کے جواب میں مولانانے ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۶ء میں ایک بےباک اور معرکۃ الآرا خطاب کیا، اور دل کھول کر انگریزی حکومت کے دہرے رویے کو اجاگر کیا، جس سے پورے لندن میں کھلبلی مچ گئی۔ اخبارات کے صفحات اس تقریرکی جادوبیانی اور حقیقت کشائی کے ذکرسے سیاہ ہوگئے یعنی پریس کی دنیا میں ایک کہرام برپا ہو گیا۔ مولانا نے۱۸۵۷ء سے ہندوستانیوں پرہورہے مظالم کی تفاصیل کو طشت از بام کر دیا۔انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ جس جمہوری نظام کے برطانوی حکومت گن گاتی ہے، وہ  انگلستان میں تو روزوشب پروان چڑھ رہاہے اور اپنے شباب پر ہے مگر ہندوستان میں اس کا وجود تک نہیں۔ ۱۹۰۵ء میں مولانا نے ایک مضمون مجاہد آزادی حسرت موہانی کے رسالے’’اردوئے معلی‘‘کے لیے بھیجا جس میں انھوں نے ہندوستان کی بدحالی اور فرنگی ملک کی خوش حالی کے راز افشا کر دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستانی اقتصادیات اور معیشت کے لیے فرنگی ایسا ہے جیسے خون چوسنے والی جونک۔ یایوں سمجھیے کہ یہاں کے معاشی نظام کے لیے انگریز اتنے ہی خطرناک ہیں جتنا کہ جونک کے لیے نمک۔ ملک کی فلاح کے لیے فرنگی زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔ ہندوستانی معاشی نظام کا مستقل گلا گھونٹا جارہا ہے۔ انگریز صرف اپنے فائدے کے رسیا ہیں۔ ہندوستانی مصنوعات پر ٹیکس انگلستان کے کارخانوں کی رعایت کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔ ہندوستانی پیداوار کو معمولی دام پر خریدکر بیرون ممالک میں اچھی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے تفصیل سے ذکر کیا کہ ایک خوش حال ملک میں کیسے غربت نے ڈیراجمایا اور انگریزی مشینری اورکارخانوں نے ہندوستانی صنعت و حرفت کوکیسے برباد کیا۔ یہی نہیں انگلستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی اشیا کے انگلستان پہنچنے پر اس پر ۷۰سے ۸۰فیصد کسٹم ڈیوٹی لگے گی، جب کہ انگریزی سامانوں کا ہندوستان آمد پر ایسا نہیں تھا، اس نے صنعتی کاروبار کو برباد کردیا۔ دنیا جدید طرز سے کھیتی باڑی کرکے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانے لگی تھی مگر ہندوستانی کسانوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پرانے ہی انداز پر کار بند رکھا گیا ۔مزید یہ بھی لکھاکہ خارجہ پالیسی کے نام پر ہندوستان سے سالانہ تیس کروڑروپیہ انگلستان بھیج دیا جاتا ہے ۔ اعلیٰ عہدوں پر انگریز ہی فائز ہوتے ہیں، ہندوستانیوں کو معمولی ملازمتیں ملتی ہیں۔ ایک موٹی رقم خرچ کرکے سول سروس امتحان کے لیے مجبوراً لندن جانا پڑتا ہے۔یہ وہ ساری وجوہ تھیں جن سے ہندوستان دن بدن تنزل کی سمت رواں تھا۔ 

مولانا ہندومسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ ان کا ہمیشہ سے یہی دعویٰ رہاکہ اگر ہندی عوام فرنگیوں سے آزادی چاہتے ہیں تو پہلے اپنے درمیان کے فاصلے کو ختم کرکے سب ایک صف میں کھڑے ہوں۔ایک دوسرے کے لیے ہر وقت ہر مشکل میں ساتھ دینے کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے پیغام دیا کہ اس حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ۔ ’’لہٰذا جب تک ہندوستان کے تمام باشندے متحد ہو کر انگریزوں کے خلاف راہ بغاوت پر گامزن نہ ہوںگے اہل ہند کے لیے منزل آزادی تک پہنچنا مشکل ہے۔‘‘مولانا اس درد سے بے چین رہتے کہ انگریز ہندوستانیوں کا خون پی پی کر مست اور دن بدن طاقت ور ہوتے جارہے ہیں اس لیے اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام قوم متحد ہو کر برطانیوی حکومت کو اُکھاڑ پھینکنے کے تیار ہوجائے۔ انھیںشدت سے احساس تھا کہ دونوں قوموں پر وبا ل ایک ہی جیسا ہے اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ دونوں قوموںکے درمیان اتحاد پیدا ہوجائے۔ مولانا نے ایران، افغانستان اور مراکش پر انگریز کے قبضہ کی وجہ ہندومسلم تفرقے کو بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان فرنگیوں سے آزاد ہوجائے تو یہ سب ممالک خود بخود آزاد ہو جائیں گے ۔ ہندوستانی معیشت کے ذریعے فرنگی کئی ملکوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔

مولانا جہاں ایک اچھے بااثر مقرر تھے وہیں ایک اچھے انقلابی صحافی بھی تھے۔ اسی انقلابی اور باغیانہ اندازنے انھیں ایک جگہ ٹھہرنے نہ دیا۔لندن میں مختلف اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ مولانا نے ایک میگزین بھی جاری کیا۔ شروع میں تواصلاحی مضامین پر زور دیا لیکن جوں ہی اس کی زمین وسیع ہوئی آزادیِ ہندکے مقصد کے تحت لکھے گئے مضامین کو شائع کرنا شروع کردیا۔ آخر ان کے رویے سے تنگ آ کر انگریزی حکومت نے انھیںلندن چھوڑ نے پر مجبور کردیا۔ امریکہ میں Farindنامی رسالے میں مولانا کے مضامین شائع ہونے لگے جس میں وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے آواز ضرور بلند کرتے ۔ وہ ’’اردوئے معلی ‘‘میںسیاسی مضامین بھیجتے۔یوں تو اردوئے معلی ادبی رسالہ تھا مگر مولانا حسرت موہانی کی جبلت میں سیاسی گرمی ہونے کی وجہ سے یہ رسالہ بھی سیاسی گوشوں سے آزاد نہ رہ سکا۔مولانا برکت اللہ نے قسطنطنیہ سے ہفتہ وار اخبار ’’الخلافت‘‘ جاری کیا۔ شروع میں تو اعتدال کی راہ اختیار کی مگر پھر اپنے اصلی رنگ و روپ میں آگئے اور انگریزوں کے ظلم و ستم کے کارنامے بے پردہ کرنا شروع کردیے۔ خارجہ پالیسی کے تحت اس اخبار پر کچھ پابندیاں عائد ہوگئیں جو مولانا کو گوارہ نہ ہوا اور وہ قسطنطنیہ کو خیرباد کہہ کر قاہرہ میں پناہ گزیں ہوئے ۔ یہاں بھی ایک اخبار جاری کیا جس میں عربی اور فارسی دونوںزبانوں میں کالم شائع ہوتے تھے۔ اخبار نے اپنی زمین اس قدر وسیع کرلی کہ عرب ممالک اور ایران میں اس کو بڑے پیمانے پر پڑھا جانے لگا اور یہاں سے کافی آمدنی اخبار کو آنے لگی، مگر مولانا کے لہجہ کی تیزی اور گھن گرج کی وجہ سے حکومت مصرسے بھی روانگی کا حکم مل گیا۔ اب مولانا نے جاپان کا رخ کیا اور جب وہاں پہنچے تو ہندوستانی جلاوطن ’’بم پارٹی‘‘ کے کچھ افراد یہاں پر موجود تھے، جن کی سرپرستی و سربراہی کا کام راش بہاری بوس انجام دے رہے تھے۔ شروع شروع میں مولانا یہاں کے مقامی رسائل میں اپنے مضامین بھیجتے رہے،جسے معیاری اور معلوماتی ہونے کی وجہ سے سراہا جاتا تھا۔ مولانا نے یہاں ’’اسلامک فریٹر نٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جب اس تنظیم کا دائرہ وسیع ہوا تو انھوںنے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور اپنی تحریروں سے برطانوی سامراجیت کے خلاف ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی کھلے طورپر تبلیغ کرنے لگے۔ یہ ہفت روزہ انگریزی ، جاپانی اور اردو زبان میں شائع ہوتا تھا۔ اس کی پہنچ بڑھتے بڑھتے برما، لنکا ، ملایا، جاوا اور انڈوچائناتک پہنچ گئی۔ اس اخبار کو بھارت تک بڑے خفیہ انداز میں پہنچایا جاتا تھا۔ پارسل سے بھیجے جانے والے جوتوں کے اندر اخبار کو ڈال کرکسی نا معلوم شخص کے نام پر ارسال کردیا جاتاتھا اور یہاں بڑی چالاکی سے فرضی شناخت کے تحت وہ پارسل وصول کیا جاتا تھا۔ لب و لہجہ کے تیکھے پن کی وجہ سے یہاں بھی حسب سابق معاملہ پیش آیا۔ مولانا نے جب جاپانی شاہ سے ملاقات کی تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’پروفیسر صاحب آپ کا وزن جاپان کی زمین برداشت نہیں کرسکتی ہے۔‘ ۱۹۱۱ء میں بھی مولانا یہاں سے اپنے مقصد کو فوت ہوتا دیکھ کر رخصت ہوگئے اورفرانس کا رخ کیا۔ ۱۹۱۲ء میں پیرس سے بھارت کی آزادی کے لیے ’’انقلاب‘‘اخبار نکل رہا تھا، مگر اس میں سردی آنے لگی تھی۔ مولانا نے وہاں پر پہنچ کر اس کی ادارت کا بیڑہ اٹھالیا۔فرانسیسی زبان سے ان کی واقفیت نے جلدہی انھیں مقبولیت بخش دی۔ یہاں سے بغاوت کا اثر یورپ اور افریقن ممالک تک پہنچنے لگا۔ ۱۹۱۳ء یں غدر اخبار کا  اجرا ہوا جس کی تقریب میں ۱۵ہزار ڈالر جمع ہوئے۔۱۹۱۴ء میں غدر اخبار نے ہندوستانیوں میں ایک بغاوت کا جوش پیدا کردیاتھا۔ اس نے پیغام دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فرنگی تسلط سے آزاد ہوا جائے۔ بیرون ملک آبادہندوستانیوںکو غیرت دلائی گئی کہ اپنے وطن واپس جاکر اپنا حق حاصل کرو۔ پیرس سے مولانا نے ہفت روزہ ’’الاصلاح‘‘بھی نکالا۔

مولانا برکت اللہ بھوپالی صدرنگ شخصیت اور گوناگوں خصوصیات کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دور بینی اور دور اندیشی کی باکمال صفات سے بھی مزین تھے۔ ہندوستان کی معاشی تباہی کا اندازہ ابھی ایشیا کے افراد پر صحیح طورسے کھلابھی نہ تھا کہ مولانا نے بدیسی مال سے ہونے والی مضرت کو بھانپ لیا تھا۔وہ بدیشی مال کی خریدو فروخت سے ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو مسلسل آگاہ کرتے رہے۔ بعد میں مہاتماگاندھی نے ۱۹۰۵ء میں سودیشی تحریک کا آغاز کیا جس سے برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا۔اسی تحریک کا اثر تھا کہ لالہ ہردیال دہلوی نے جو غدر پارٹی کے اہم ارکان میں سے تھے آکسفورڈیونی ورسٹی کا وظیفہ واپس کردیا۔ ۱۹۰۸ء میںایک کلاس جاری کر کے اس بائیکاٹ کی مہم کو اور تیز کیا گیا۔

حب الوطنی کا تقاضا کیا ہے ۔ مولانا اپنے مضمون ’’ہندو مسلماں در ہندوستاں‘‘میں لکھتے ہیں کہ مسلمانان ہندپر دو فریضے عائد ہوتے ہیں ایک وطنی اور دوسرا دینی۔ وطنی فرض یہ ہے کہ مادر وطن کے لیے جان و مال کی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو شخص محب وطن نہ ہوا وہ انسانیت سے خارج ہوگیا۔ان کے نزدیک جو انسان حب وطنی سے خالی ہے اس پر خدا کی لعنت ہے:

مشمار مرد کاں را حب وطن نہ باشد

ننگِ بشر ہمانست لعن خدا برآنست

 دوسرا دینی تقاضا یہ ہے کہ تمام عالم انسانیت کو دوست جانو ، ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرواورہندو مسلم اتحاد قائم رکھو۔ہندو اور مسلم کو اس حالت میںدیکھنا چاہتے تھے کہ معاشی طورپر سب اس قدر مضبوط ہوں کہ وقت پڑنے پر ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔ وہ اس بات کے بھی داعی تھے کہ اگر ہند وستانی مسلمان اپنی کامیابی چاہتا ہے تو ہندوبھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر ساتھ چلے کہ یہ کامیابی کا سب سے بڑا نسخہ ہے۔

مولانا نے ایک کتاب ’’الخلافت ‘‘نام سے بھی تالیف کی تھی ۔ جس کا پہلا ایڈیشن ۴؍اگست۱۹۲۴ءکوشائع ہوا۔ جلدی ہی اس کتاب نے اپنے قیمتی مواد کی وجہ سے شہرت حاصل کرلی۔ یہاں تک کہ ۱۹۲۵ءیں دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔

کسی بھی بڑے مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تحریک کا کافی اہم رول ہوتا ہے۔ تحریک انسان کو شعوربخشنے کے ساتھ ساتھ حقیقی مقصد کے حصول کی قوت بھی بخشتی ہے۔ مولانا بھی مختلف تحریکوں سے جڑے رہے لیکن ہر تحریک کا مقصد بھارت کوانگریزی حکومت سے آزادی دِلانا تھا۔

’شیخ الہند تحریک‘کے اعلیٰ مقاصد ،مستقل مزاجی اور نیک ارادے نے مولانا کو کافی متاثرکیا اور وہ اس کا حصہ بنے بغیر نہ رہ سکے۔ اس تحریک نے آزادیِ ہند کے لیے بہت ساری قربانیاں دیں۔ اس نے ہندی عوام کی صحیح تربیت کی اور انھیں راہِ مستقیم پرگامزن کیا۔ شیخ الہند تحریک نے عوام الناس اور خواص کو فرنگی سامراجیت سے آزادہونے کے راستے دکھائے۔ اس تحریک کے روح رواں ’ولی الٰہی‘ تحریک کے چوتھے امام شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تھے۔ شیخ الہند کا نام مجاہد آزادی کے بڑے رہنمائوں میں شامل ہے۔ اس دور اندیش رہنما کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ عوام و خواص کو صحیح تربیت اور صحیح راہ نہ دکھائی جائے۔ ایسے ہی مقصد کے لیے مولانا بھوپالی جب جاپان میں تھے وہاں قیام پذیر جلاوطن انقلابیوں کے ساتھ مل کر ’’انقلابی پارٹی‘‘کی بنیاد رکھی۔اس کی شاخین کئی ملکوں میں قائم کی گئیں۔’ شنگھائی‘ میں متھرا سنگھ کی سرپرستی میں تو ’ہانگ کانگ‘میں بھگوان سنگھ کے زیر نگرانی کام چلنے لگا۔ انقلابی سپہ سالاروں کاایک بڑا گروپ امریکہ میں جمع ہواجن میں قابل ذکر نام لالہ ہردیال کرشن جی ورما اور مولانا برکت اللہ کے ہیں۔ یہاں پر ’’انڈین ایسوسی ایشن آف پیسیفک کوسٹ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہی تحریک بعد میں ’غدرپارٹی‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔ امریکہ اور کناڈا میں جو لوگ مقیم تھے ان میں اکثریت انگریزحکومت مخالفین کی تھی ۔ چند ہی ایسے افراد تھے جو باغی الذہن اور مشتعل نہ تھے، لیکن مولانا اور لالہ جی کی پُرمغزاور سحرانگیز تقریر نے ان کے دلوں میں بھی آزادیِ ہند کی روح پھونک دی۔ اس تحریک کا دائرہ امریکہ اور کناڈا کے علاوہ میکسیکو، فلیپائن، آسٹریلیا، ملابا اور جاوا تک پھیلا ہوا تھا۔ اس گروپ کی سربراہی میں ایک شعلہ بیاں اور شعلہ انگیز اسلوب سے بھرا ’’غدر کی گونج‘‘ نام سے نظموں کا مجموعہ شائع کیا گیا تاکہ لوگوں میں فرنگی حکومت کے خلاف اشتعال پیدا کیا جاسکے۔ اس تحریک کی سخت پیامی نے لوگ میں انگریز کے خلاف سخت شورش پیدا کی۔ اس کی اپیل تھی کہ غدر لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کیا جائے۔ تحریک نے عوام کو دعوت دی کہ ریلوے پٹریاں اُکھاڑ ڈالو، ان کے بینکوں کواپنا ذاتی مال سمجھ کر لوٹ لو وغیرہ ۔اسی سخت اپیل کی وجہ سے امریکہ نے برطانوی سرکار کے دبائو میں آکر لالہ جی کو ملک بدر کردیا۔ اب مولانا برکت اللہ اور رام چندر جی نے اس تحریک کی باک ڈور سنبھالی۔ ’’انڈو جرمن مشن‘‘  کے ذریعے سے ہندوستان پر فرنگیوں کے خلاف حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا، جو آزادیِ ہند کی تاریخ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا اس کا اہم حصہ تھے۔ جرمنی سے وفد روانہ ہوا،مولانا نے ہی اس کے لیے راہ ہموار کی اور زبردست خاکہ تیار کیا۔ انقلابیوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کے سرپرست خود مولانا ہوئے اور دوسرے کی قیادت راجہ مہندر پرتاب نے سنبھالی، جس میں جرمن افسران بھی شامل تھے۔ مولانا کی ٹیم جرمنی سے روانہ ہوکر جہاں ٹھہری تھی وہیں ان کی مصر کے سابق بادشاہ عباس حلمی سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں عباس حلمی معزولی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ انھیں برطانیہ نے جرمنی سے دوستی کے سبب معزول کردیاتھا۔ مولانا نے حلمی کو یقین دلایا کہ ہم نے جو پالیسی تیار کی ہے اور جس کام کابیڑا اُٹھایا ہے اس سے اب ہندوستان اور مشرق وسطیٰ فرنگیوں سے آزاد ہوکر ہی رہے گا، جس کی آزادی میں مصر کی آزادی بھی پنہا ںہے۔ اگر ہندوستان اور مشرق وسطیٰ سے برطانوی ظالم و جابر حکومت کاخاتمہ کردیا جائے تو کئی ممالک آزاد ہوجائیں گے اور وہاں امن و امان قائم ہوجائےگا۔ ۱۹۱۹ء میں ’’ایشیائی آزادیِ کانگریس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مقصد ایشیا سے برطانوی حکومت کا مٹانا تھا۔ اس کو ’’یونین فاردی فرڈم آف دی اورینٹ‘‘کا نام دیا گیا۔ مولانا اس میں بھی شامل تھے۔ دسمبر۱۹۲۰ء میں ہاکو میں اسی مقصد کے لیے ایک سبھا منعقد کی گئی، جس میں کئی ایشیائی لیڈروں اور آزادی کے دیوانوں نے شرکت کی۔ مولانا بھی اس پروگرام میںشریک ہوئے۔ مولانا آزادیِ ہندکے لیے تحریک پیدا کرنا اور تحریکات میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے اور زندگی کا نصب العین بھی جس کی وجہ سے مولانا کو دربدر اور جلاوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔ مولانا جہاں رہتے وہاں کی حکومتی خارجہ پالیسی میں اپنے مقصد اور تحریک اور بے باکی کی وجہ سے کانٹا بن جاتے اور یہ کانٹا حکومتوں کے حلق میں چُبھنے لگتا جس کی تکلیف کا خمیازہ مولانا کو اٹھانا پڑتا اور پھروہ وہاں سے ملک بدر کردیے جاتے۔

قدرت نے مولانا کوایسے خمیر سے تیار کیا تھا کہ ان میں خوف و ہراس کانام و نشاں نہیں تھا۔ شایدیہی وجہ تھی کہ مولانا حق بیانی اور ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے میں ذرہ بھر بھی خوف نہیں کھاتے تھے اور نہ ہی اس کام سے کبھی قدم پیچھے ہٹایا۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات حکومت برطانیہ کے لیے شعلۂ جوالہ ہواکرتی تھی۔ مخالفین کے دلوں میں ان کی ہربات تیرو نشتر سے لگے زخم سے کم نہ ہوتی تھی۔ ان کی تقریر کی تلخ گفتاری اور حقیقت بیانی برطانوی شیطانوںکے دہرے رویے اور خفیہ چہرے کو سرعام کرتی رہتی۔ لندن میں اپنی تقریر کی وجہ سے قابل گرفت گردانے گئے۔ اس کے باوجود مولانا نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اور اپنا مشن اوروژن جاری رکھا۔ غدر فوجیوں کے سامنے کی گئی ایک تقریر کا اثر ایساتھا کہ مجاہدین اور بچے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ سب نے عہد اور حلف اٹھا یا کہ ہم اس وقت تک انگریزوں کے خلاف عَلم بلندرکھیں گے جب تک ہمارے اندر جان ہے۔ مولانا نے دوران تقریر کہا کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اس بدیسی حکومت کوزیر کر کے خاک چٹائی جائے۔ اس نے ہمارے سکون کو غارت کردیا ہے لہٰذا سکون چاہیے تو صف آرا ہوکر ان پر ٹوٹ پڑو۔ ۱۹۱۷ء میں ہندوستانی باغیوں پر مقدمہ درج ہوگیا جس میں مولانا کے ساتھ بھگوان داس، رام چندرجی اور امام الدین وغیرہ ملزم ٹھہرائے گئے۔ابتداء ًاس مقدمہ میں ۱۰۵اشخاص کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ امریکی سرکاری وکیل ’جان پرسٹن ‘ اس مقدمہ کے وکیل تھے اور ان کی مدد کے لیے سیز اینتیMrs. Annete مقرر کی گئیں۔ الزام تھا کہ ملزمان باغیوں کے لیے فنڈ اور مفت ہتھیار مہیا کرتے ہیں، اس مہم کا مرکز سان فرانسسکو ہے اور اس کی شاخیں مختلف ملکوں میں ہیں جن میں میکسیکو، چین، جاپان اور بٹاویہ کے نام قابل ذکر ہیں۔انقلابیوں کے جانب سے ۱۵وکلا مقرر کیے گئے۔مقدمے کی سماعت فیڈرل کورٹ جج مسٹر ڈبلو،دان دلیٹ کے اجلاس میں شروع ہوئی۔ اس مقدمے کی خبر اخبار ’ سان فراسکوایگزامیز‘‘ میں۲۳؍نومبر ۱۹۱۷ء کو شائع ہوئی تھی۔ وجدی الحسینی اس حوالے سے اپنی کتاب ’’انقلابی سوانح: برکت اللہ بھوپالی‘‘کے صفحہ ۱۸۳پر لکھتے ہیں:

’’رپورٹ میں یہ ہے کہ ملزم برکت اللہ بھوپالی نے اپنی چرب زبانی سے ہندوستانی قیدی فوجیوں کو جرمنی کی فوج میں شامل ہونے کا مشورہ دیا اور غدر پارٹی نے باغیانہ لٹریچر قیدیوں میں ہوائی جہاز سے برسایا اور تقسیم کیا۔ اس منصوبہ میں یہ پلان طے ہوا کہ ہندوستان پر دونوں طرف سے ہلّہ بول دیا جائے، رنگون، برما، بٹاویہ کے انقلابیوں سے رابطہ قائم کیا گیا اور جرمنی جہازوں سے ہتھیار مختلف مقامات پر اتارے گئے، مگر یہ منصوبہ راز فاش ہوجانے پر ناکام ہوگیا۔دوران مقدمہ ملزموں نے مزید افشائے راز کی کوشش کی۔ جس پر انقلابی ملزم رام سنگھ نے رام چندر کو گولی ماردی، یہ دیکھ کر امریکی مارشل جیمزہالونے رام سنگھ کو گولی ماردی۔ اس مقدمہ میں انتالیس انقلابی سزایاب ہوئے۔ ‘‘

مولانا جہاں بھی پناہ لیتے وہاں یہ دیکھتے کہ وہاں کی حکومت ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے یا ہورہی ہے، فوراً اس کے دربار تک رسائی حاصل کرنے میں لگ جاتے اور اپنے منصوبے کا چٹھا ان کے سامنے پیش کردیتے تھے۔ اسی کی ایک کڑی آزادیِ ہند کے پروانوں کی قیصر جرمن سے ملاقات ہے۔ مولانا کیوں کہ جرمن زبان پر دسترس رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے ہی اس ملاقات کی رہنمائی کی۔ اسی ملاقات کا حاصل اور منصوبے کی عمل آوری تھی کہ جرمنی اور برلن کمیٹی کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ مولانااپنی جماعت کے ساتھ جوں ہی قیصر جرمنی ولیم ثانی کے دربار میں حاضرخدمت ہوئے ولیم نے خود آگے بڑھ کر اس وفد کا استقبال کیا۔ ولیم نے اس ملاقات میں دل کھول کر ہندوستانی مجاہدین کی حمایت کی اور ان کی کوششوں کو عزت بخشی، جس کے ثبوت کے لیے ولیم کے اس وفد کے سامنے اظہار کیے گئے خیالات ہی کافی ہیں:

’’ان چند سالوں کے اندر ہندوستان سے برطانوی اقتدار کا خاتمہ ہونا چاہیے اور آپ ہندوستانیوں کو اس سے بہتر سنہرا موقع کبھی ہاتھ نہیںآسکتا کہ اپنے اوپر لدے ہوئے اس بوجھ غلامی کو اٹھاکر پھینک دیں۔ ان سفاکوں اور جابروں کے ہاتھ کاٹ ڈالیں، جو تقریباً دوسوبرس سے آپ کی قوم کے خون سے ہاتھ رنگتے چلے آرہے ہیں۔‘‘

 (برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص:۱۴۵، ناشر:عفان پبلی کیشنز،بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت:جون۱۹۶۹ء)

۷؍مئی ۱۹۱۷ءکومولانا برکت اللہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ روسی وزیر اعظم کامریڈ لینن سے ملاقات کی۔ اس ملاقاتی وفد میں راجہ مہندر پرتاپ، مولوی عبدالرب، مسٹر آچاریہ، مسٹر دلیپ سنگھ گل اور ملازم ابراہیم وغیرہ شامل تھے۔ راجہ صاحب نے خود اس ملاقات کے بارے میںمفصل حال قلم بند کیا ہے۔ یہاں پر ان ہی کے الفاظ میں رقم ہے:

’’میںنے کہا قدرت آپ کو محنت کشوںکی خدمت گزاری کے لیے استعمال کررہی۔‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’یہ آپ کا خیال ہے۔‘‘

’’میں نے اپنی اجناس کی کاپی جاری کرنے والی تجویز ان کے سامنے پیش کی کہ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ گیہوں، چاول ،مکھن کوئلہ وغیرہ کے نوٹ چھاپے جنھیں چاندی اور سونے کے سکوں کے بجائے رائج کیا جائے۔ انھوں نے فرمایا اس پر غور کروں گا۔ ’’اس کے بعد وہ میرے احباب کی جانب مخاطب ہوئے ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ پروفیسر دوزینا نیکی نے انھیں روسی زبان میں کچھ سمجھایا۔ انھوں نے ہم سب سے ایک ایک دودو سوالات کیے۔ جب انھوں نے ابراہیم سے ایک سوال کیا تو اس نے روسی زبان میں جواب دیا۔ لینن اس کی ٹوٹی پھوٹی روسی زبان سن کر بے حد خوش ہوئے او ربڑی مسرت سے کہا’’اُو۔ تم روسی زبان بول لیتے ہو!‘‘

’’ہم تقریباً ۲۰منٹ تک کامریڈ لینن کے پاس ٹھہرے اور رخصت کے وقت انھوں نے ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ پھر ہم چلے آئے‘‘۔

(برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص:۲۲۲، ناشر:عفان پبلی کیشنز،بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت:جون۱۹۶۹ء)

اسی مضمون کے فٹ نوٹ میں راجہ جی لکھتے ہیں ’’…اخبار از دستیا نے ایک مختصر سی خبر یہ شائع کی کہ اس ملاقات کے دوران برکت اللہ نے لینن کو افغان حکومت کی جانب سے غیر سرکاری طور پر یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف افغانی جدو جہد میں اس کی امداد کریں۔‘‘

(مصدر سابق۔انقلابی سوانح: مولانا برکت اللہ بھوپالی۔ تالیف: سید عابد علی وجد الحسینی۔ شائع: مدھیہ پردیش اردو اکادمی ، بھوپال۔ سنہ اشاعت:۱۹۸۶ء)

مولانا ۱۹۰۴ء میں ترقی یافتہ جاپان میں داخل ہوئے۔ وہ جہاں بھی جاتے وہاں سے نکلنے والے اخبارات اور رسائل کا ضرور پتہ لگالیتے اور اس میں اپنے مضامین بھیجتے۔ یہاں واردہونے کے بعد انھوں نے ایک مضمون لکھا۔ جب جاپانی زبان میں وہ مضمون شائع ہوا تو مولانا کی ہرچہار جانب سے تعریف ہوئی۔یہاں تک کہ جاپان کے شاہ سے ملاقات کی دعوت مل گئی۔ مولانا سے شاہ اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کی خدمت میں ۱۰۰پونڈ نذرانہ پیش کیا ۔ مزید نتیجہ برآمد ہوا کہ تیسرے دن ٹوکیو یونی ورسٹی سے پروفیسری کا عہدہ پیش ہوگیا اورمولانا اردو کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ یہاںپر بھی مولانا نے اپنے اصل مقصد کو ضائع نہ ہونے دیا،لیکن مولانا پربرطانوی حکومت کے خلاف زہر افشانی کی پاداش میں پا بندیاں عائد کردی گئیں۔ مزید یہ کہ مولانا کو ٹوکیو یونی ورسٹی کے عہدے سے برطرفی کا نوٹس آگیا اور انھیں اپنے عہدے کو الوداع کہنا پڑا۔ جاپان میں مولانا کا تقریباً پانچ سال قیام رہا ۔ ۱۹۱۲ء میں وہاں سے فرانس پہنچے۔ جب جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حکیم اجمل خان بغرض علاج پیرس آئے تو مولانا سے ملاقات کی۔ حکیم صاحب کے مولانا سے گہرے تعلقات تھے۔ مولانا برکت اللہ کے پیرس قیام کا مقصد یہ تھا کہ روسی حکومت افغانستان کی فوج کی مدد کرے۔ یہ مدد اس وقت ہو جب افغان فوج ہندوستان میں قائم فرنگی حکومت پر یلغارکرے۔مولانانے لوزان کانفرنس کے بعدفرانس کے دارالحکومت پیرس کو اپنا مسکن بنایا۔ قیام پیرس کے دوران آزادیِ ہند کے لیے کام کرتے رہے اور یہاں بھی سرگرم ہندوستانیوں کا ایک گروپ تیار کیا۔ ۱۹۲۷ء میں بلجیم کی عالمی کانفرنس میں غدر پارٹی کے سرکاری نمائندہ کے طورپر شامل ہوئے اوریہیں پنڈت نہرو سے ان کی ملاقات ہوئی ۔

 مولانا برکت اللہ بھوپالی نے امریکہ میں ۲۰؍ستمبر ۱۹۲۷ء کواس دارفانی کوالوداع کہا ۔ جوں ہی مولانا کی رخصت کی خبر نشر ہوئی تو یورپ وایشیا میں ان کے مداحان اور رفقا نے غم میں کاروبار تک بند کردیے۔ ہر طرف ماتم کا عالم بپا تھا۔ راجہ مہندر سنگھ لکھتے ہیں کہ مولانا کے مذہبی عقیدے کے مطابق ان کی آخری رسم پوری کی گئی۔ تجہیز و تکفین میں ان کے وارثین اور قریبی دوست تھے جن میں ہندو،مسلم، سکھ سبھی مذاہب کے لوگ شامل تھے۔

اس عظیم انقلابی شخصیت کو فراموش کیے جانے کے درد نے سب سے پہلے جس شخص کو بے چین کیاوہ تھے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ۔یوں تو مولانا بھوپالی کے کارہائے نمایاں کے بے شمار تذکرے موجود تھے مگر یہ سب مختلف مضامین اور رسائل میں بکھرے پڑے تھے۔ اس مجاہد کے کچھ بکھرے ہوئے تذکرے اور موادمولانا عبدالماجد دریابادی کے ہفت روزہ ’’سچ‘‘ لکھنؤ، منشی شاکر نکہت سہسوانی کے’مدینہ‘  ڈاکٹر پی ایس منگل مورتی کے’’دشوانی‘‘الہ آباد، گوپال سنگھ کے’انقلاب‘ لاہور، راجہ مہندرپرتاپ کی’میری پچپن سالہ داستان حیات،ظفر حسن کی’’آپ بیتی‘‘ خواجہ حسن نظامی کے سفرنامہ مصرو شام و حجاز میں تھے۔مولانا پر کوئی وقیع اور مستقل کام نہ ہوسکاتھا۔ مولاناآزاد نے چترنرائن مالویہ، سعیداللہ خان رزمی اور مولانا طرزی مشرقی کو متوجہ کیا اور شاکر علی خان کے اشارے پر یہ کام ایم عرفان صحافی کو سونپاگیا۔ ایم عرفان نے عرق ریزی اور دیانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ ۱۹۸۸ءمیں ڈاکٹر گومتی کو مولانا برکت اللہ پرزبان ہندی میں خدمات کی وجہ سے برکت اللہ یونی ورسٹی نے ڈاکٹریت کی ڈکری سے نوازا۔ ۱۹۸۸ء میں ہی مولانا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بھوپال یونیورسٹی کو ’’برکت اللہ یونیور سٹی ‘‘کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

...

کتابیات:

(۱)      برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص: ناشر: عفان پبلی کیشنز، بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت: جون۱۹۶۹ء۔

(۲)      انقلابی سوانح: مولانا برکت اللہ بھوپالی۔ تالیف: سید عابد علی وجد الحسینی۔ شائع: مدھیہ پردیس اردو اکادمی ، بھوپال۔ سنہ اشاعت: ۱۹۸۶ء۔

(۳)     بھوپال تحریکاتِ آزادی  کے آئینہ میں، مصنف: سید عابد علی وجدی الحسینی ۔ کلاسیکل پرنٹرس دہلی۔سنہ اشاعت:۱۹۸۶ء۔

(۴)     مسلم دیس بھگت،مصنف:رتن لال بنسل،شائع :ہندوستان کلچر سوسائٹی الہ آباد۔سنہ اشاعت۱۹۴۹ء

(۵)      مشاہیر بھوپال، از: ملارموزی۔ اہتمام: نصیرالدین انصاری صدر جمعیۃ الانصار،بھوپال چھائونی۔(ریختہ ڈاٹ کام)

(۶)      ہندوستان کی جنگ میںبھوپال کاحصہ اورشاکر علی، مرتبہ: نصرت بانوروحی،مطبع: ہندوستان آفسیٹ پل بوگدابھوپال۔۲۳

(۷)     جنگ آزادی کے مسلم مجاہدین، مرتبہ ضامن علی خاں۔ مطبع:بھارت آفسیٹ دہلی۶، سنہ اشاعت:۱۹۹۱ء

 

13-A، سیکنڈ فلور، غفور نگر، جامعہ نگر

اوکھلا، نئی دہلی-110025

موبائل:  7275989646

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...