Thursday, August 3, 2023

نیر مسعود کی افسانہ نگاری عالم تحیر کی جادو نگاری

نیر مسعود کی افسانہ نگاری عالم تحیر کی جادو نگاری

پروفیسر صغیر افراہیم

نیّر مسعود فنِ افسانہ کی بُنت اور پیش کش کی ممکنہ راہوں سے اِنحراف اور خود اپنے طرز کے مُوجِدہیں۔ اِس طلسمی فن کار کی زنبیل میں گنجینۂ معانی کی ان گنت سچائیاں مختلف ابعاد وجہتوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ مابعد جدید نظریہ میں اس فنّی کرشمہ سازی کو ’’جادوئی حقیقت نگاری‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے۔ موضوعی سطح پر تاریخ، جغرافیہ، سیاست، اسطور، عقیدہ، ایمانیات کو شامل کرکے نیرّ مسعود اپنے جادوئی قلم کے سہارے بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ تضادات و تناقضاتِ حیات کو تخیل سے ہم آمیز کرکے فن کار، جب زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کے عمل سے گُزارتا ہے تو اُس کا سحر انگیزافسانوی آرٹ اور کرافٹ وجود میں آتا ہے۔ وہ اس طرۂ امتیاز کے ساتھ کہ نثری آرائشی لوازم سے عاری نثر جو ایک نوع کے ریاضیاتی توازن سے مملو ہے، افسانہ نگار نیر مسعود کا خاصہ ہے۔ قولِ محال کا متواتر استعمال اور قطعی اور حتمی کیفیت سے ممکنہ انحراف اور متعدد کہانیوںکو بیک وقت ایک بیانیہ میں متشکل کردینا ہی نیرّ مسعود کا ساحرانہ عمل ہے۔ انھوں نے تہذیب وتاریخ کے باہمی ربط، اودھی پس منظر اور اس سے متعلق رونما ہونے والے حادثات اور اُن کے اثرات کوبڑی خوبصورتی سے فنِ افسانہ کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ علامت، استعارہ، تشبیہ، رمزیت اور تجریدیت کی باہمی آمیزش سے ایسا بیانیہ خلق کرتے ہیں جو اپنے اظہار میں پہلو دار بھی ہوتاہے اور جاذب نظر بھی۔ انھوںنے روایت کو تجربے میں سموتے ہوئے اپنا مخصوص اسلوب وضع کیا ہے جس میں تمثیلی اور تشبیہی اظہار کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ حالاںکہ نیر مسعود کا خود یہ کہنا ہے کہ ان کے کسی بیان میں اگر شعری انداز پیدا ہورہا ہے تو اُس بیان کو وہ رد کردیتے ہیں مگر ان کے افسانوں کا مجموعی تاثر اُن کے علامتی واستعاراتی بیانیہ کو محکم کرنے والا تاثر ہے۔ بھول بھلیاں ، موجود سے غیر موجود اور موہوم سے غیر موہوم کو بیک وقت بیانیہ کے طرزکی گرفت میں لینا نیر مسعود کے افسانوی ہُنر پر شاہد ہے۔ اس لحاظ سے بھی نیر مسعود اردو کی افسانوی تاریخ میں منفرد فن کار ہیں کہ انھوں نے جدید اردو افسانہ میں پہلی بار Magic Realism کی تکنیک کا مکمل فنکارانہ اظہار کیاہے، نیزفنی شعور کے ساتھ اپنے بیانیوں میں اس کا تجربہ بھی کیاہے۔

مافوق الفطری عُنصر، ہمارے قدیم افسانوی ادب کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ یوں بھی یہ کائنات ایک حیرت انگیز جگہ ہے اور یہاں ہر طرف ایک پُراسرار فضا موجود ہے۔ لکھنے والے کو اپنے قاری کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ اِس پُراسرار دنیا میںکچھ بھی ممکن ہے ۔ دراصل اِس تکنیک میں انتہائی چابک دستی سے اپنے قاری کو بغیر مجبور کیے، حیرت ناکی کی کثیر جہت دنیا کا تعارف پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس تعارف میں قاری تخلیق کار کی بیان کردہ حقیقت کا حصہ بن جاتاہے اور اس طرح بیانیہ میں جادوئی حقیقت نگاری کا عمل اپنے اختتام کو پہنچتاہے۔

چار افسانوی مجموعوں (طاؤس چمن کی مینا، عطرِ کافور، گنجفہ، سیمیا) پر مشتمل نیر مسعود کی افسانوی بساط میں مکان، بستی، شہر، جنگل اور دیوان خانے اُجڑتے ، معدوم ہوتے یا غائب ہوتے ضرور رونما ہوتے ہیں۔ پھر بغیر کسی علت یا تاویل کے اچانک نمودار ہوجاتے ہیں۔ اِس افسانوی صورت حال میں قصہ کے تسلسل کو برقرار رکھنا، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جو بلاشبہ نیّرمسعود کی فن سے گہری وابستگی کا ثبوت پیش کرتی ہے۔

دانش ورانِ ادب نے اپنی تنقیدات میں نیّرمسعود کے مخلوط بیانیہ کی بجا طور پر نشاندہی کی ہے۔ اس بے حد مشکل افسانوی طریقِ کار میں فنکار نے زندگی کے تضادات اور انتہائی بے میل پہلوؤں پر مکمل فہم وفراست کے ساتھ قصۂ حیات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ اور قاری کی بے قراری کو اپنا ہمنوا بناکر، بیانیہ کی مختلف جہتوں کے توسط سے اردو کی افسانوی تاریخ میں وہ کردکھایا ہے جو نہ صرف ایک اضافہ ہے بلکہ نیّرمسعود کو زندہ اور پائندہ رکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ مثلاً’’نصرت‘‘ اپنی بُنت اور مخصوص فضا کے اعتبار سے قاری کو اپنے بہت قریب کرلیتاہے۔ واحد متکلم کے صیغے میں لکھے گئے اِس افسانے میں چار کردار ہیں۔ راوی، جراح، بدکار عورت اور نرم ونازک نصرت۔ آغاز بدکار عورت کے قصے سے ہوتا ہے پھر اس فضا میں پھولوں کی مہک کی طرح نصرت داخل ہوتی ہے اور سب پر حاوی ہوجاتی ہے۔خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور، نصرت راوی کے گھر تیماردار کی حیثیت سے آتی ہے اور پھر ایک حادثے کاشکار ہوکر چلنے پھرنے سے معذورہوجاتی ہے۔ پیش کش کی اس روایتی صورت حال میں نیر مسعود نے ایسی لفظیات کاانتخاب کیاہے جس میں بیانیہ اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے افسانوی فضا پر چھا جاتاہے۔

یہی بیانیہ ’’شیشہ گھاٹ‘‘ میں احساسِ جمال کو جذب کرکے حیرت واستعجاب کا پیکر بن جاتاہے اور پھر واہمے اور وسوسے سریت کا باعث بنتے ہیں۔ انفرادیت یہ ہے کہ اس کی ہیئت میں بیانیہ، پلاٹ، کردار اور بیان کے تسلسل کو مختلف ممکنہ اور جمالیاتی اظہار کے ساتھ قائم کیاگیاہے۔بے یقینی اور عدم تعین بھی نیّرمسعود کی فنی مہارت کا خاص حربہ ہے۔

کہیں ’رودالی‘ کی طرح میت پر آہ وبکا (نُدبَہ) کی رسم، کہیں بگولے کے قریب نواب عالم کاکھڑے کھڑے سب کی آنکھوں کے سامنے غائب ہونا، افسانہ کو جادوئی تاثر مہیا کرنے کا سبب ہے، تو کہیں مولسری کے درخت اور اُس کے عطر کی خوشبو (دستِ شفا) وہ فضا پیدا کرتی ہے۔ پُرانے صندوق میں پُرانی ٹاکیوں میں لپٹاہوا ’’پاک ناموں والا پتھر‘‘، خون خرابے کی روداد کو ہی اُجاگر نہیں کرتا، طلسمی ماحول پیدا کرنے میں معاون ہوتاہے۔ اِس افسانہ میں وہ وضاحت نہیں کرتے ہیں کہ ملازمہ مہمانوں کو شربت پیش کرتی ہے۔ غیر یقینی صورت پیدا کرنے کے لیے راوی بیان کرتا ہے کہ ’’گلاسوں میں کسی قسم کا شربت تھا‘‘۔ کسی قسم کا کہہ کر وہ افسانہ میں تحیر وتجسس کو ہی بیدار نہیں کرتے بلکہ کُرید کے جذبے کو بھی مہمیز کرتے ہیں۔وہ خواب اور تخیل کی مدد سے پُراسرار فضا کو تشکیل کرتے ہوئے خواب کو حقیقت او رحقیقت کو خواب بنادیتے ہیں۔ اسی لیے حسّاس قاری کو بھی مطالعے کے دوران چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ جو بات نیّرمسعود نے کافکاؔ کے تعلق سے کہی ہے، وہ اُن پر بھی صادق آتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’کافکاکا فن یہ ہے کہ اس کی تحریر کو پڑھتے وقت اُس پر تمثیل کا گمان نہیں گزرتا اور اس کا قاری انہونی سے انہونی بات کو ایک حقیقت کی طرح قبول کرلیتاہے‘‘۔ (کافکا کے افسانے، ص:۱۳)

مزید فرماتے ہیں:

’’اُن کے یہاں یہ سب باتیں مہمل لگنے کے بجائے کسی نہایت پُراسرار منطق پر مبنی اور بالکل قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہیں جن کی بنیادوں پر اُٹھنے والے مسائل قاری کو کبھی دہشت زدہ کردیتے ہیں، کبھی مایوس اور کبھی اُس کے جذبات کو کچل کررکھ دیتے ہیں‘‘۔

(کافکا کے افسانے،ص: ۱۴)

معروف ، غیر معروف ، اہم اور غیر اہم کی کشاکش کی واضح مثال افسانہ ’’عطرِ کافور‘‘ ہے جس میں وقت گُزرنے کی بنا پر کافور معدوم ہوجاتا ہے لیکن اس کی موجودگی کا احساس برقرار رہتا ہے۔ نیّر مسعودکہانی کو اس فنی مہارت سے بُنتے ہیں کہ اُسے کسی ایک زاویے، نظریے یا کسی حتمی رائے کے مطابق پرکھا نہیں جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن کے مختلف ناقدین کی مختلف رائیں ہیں۔وہ خارج کی صورتِ حال کو دُھندلاکر باطن سے منسلک کرتے ہیں۔ اِس عمل میں اکثر ابہام پیدا ہوتا ہے اور یہ ابہام، سریت کے احساس کو اُجاگر کرتا ہے ،اکثر ناقدین نے اسے ثقافتی وجود کی گم شدگی سے منسلک کیا ہے۔ بلاشبہ نیر مسعود کو اپنی تہذیب خصوصاً اودھ کی تہذیب سے دلچسپی رہی ہے، جس کا ذکر وہ فن پارے کی زیریں لہروں میں ضرور لے آتے ہیں۔ وہ بھی براہِ راست یا اسم کے توسط سے نہیں۔ وہ ممکن حد تک شخصی یانفسی واردات سے بچتے ہیں اور ڈیوڑھیوں، حویلیوں، کھنڈرات اور دبے ملبے کے ذریعے تہذیبی حافظے کے مسکن کو اُبھارتے ہیں۔ اس دیار کی مختلف صورتیں ، کہیں دھندلی اور کہیں واضح ہوتی ہیں۔ بظاہر وہ ماضی پر ملال نہیں کرتے، حال کا رونا نہیں روتے اور مستقبل پر بھی شک کرتے نظر نہیں آتے ہیں، لیکن ان سب کا احساس، حسّاس قاری ضرور کرتاہے۔ نیر مسعود کی تکنیکی بساط کے جمنے اور جمانے کے اہم ترین عناصر اضافیت، حذف، ابہام اور سریت قرار پاتے ہیں، جن کے تانے بانے کہیں نہ کہیں ہمارے قدیم افسانوی ادب سے منسلک ہوتے ہیں۔ اُن کے یہاں حقیقت کی دنیا سے فرار نہیں ہے، بلکہ طلسمی فضا کا تعلق خواب اور خود کلامی سے ہے۔ راوی، اُس کے کسی رشتہ دار کی اچانک یاد کی آمد، مافوق الفطری نہ ہوکر خواب کو حقیقت اور حقیقت کو خواب میں منتقل کرنے کاافسانوی عمل ہے جس کے ذریعے وہ قاری کو استعجاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ مارگیر، نُدبہ، نوشدارو، وقفہ ،پاک ناموں والا پتھر، دستِ شفا اِسی طرز کے افسانے ہیں۔

’علّام اور بٹیا‘ انسان کی تاریخی اور معاشرتی صورتِ حال بلکہ وجودی صورتِ حال سے بھی پرے اس کی نوعی اور ساختی صورتِ حال کا افسانہ ہے۔ جسم،حرکت، احساس، شعور، ادراک اور ان کے علاوہ حافظہ، نظر کی فریب کاری، یہ سب علم نفسیات اور طبی سائنس میں مطالعہ کے موضوع رہے ہیں۔ ایک ایساآدمی جوجنگل سے جانور پکڑ کر لاتا ہے تہذیبِ جدید سے پہلے آدمی کی فطری بود وباش کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے فن پارے میں علم بشریات (Anthropology) میں دلچسپی کی ایک جہت پیدا ہوتی ہے۔ آگے غور کریں تو قصۂ یعقوب و یوسفؑ کی طرف بھی دھیان جائے گا۔ پھر التباس اور حقیقت (Illusion and Reality) کا موضوع تو موجود ہے ہی۔ گویا افسانہ میں معانی کے اتنے امکانات ہیں کہ وہ پڑھنے والے کی توجہ اصل متن سے ہٹا سکتے ہیں۔ ایسے میں بہتر یہی ہوگا کہ متن کی ساخت پر دھیان دیا جائے۔ افسانہ کی تمہید کئی صفحوں پر مشتمل ہے۔ عمر کے ساتھ حافظے کاضعف اور اس وجہ سے جن تجربات سے راوی گزر رہا ہے اُن کا مرکزی نکتہ، پیش آگہی (Premonition) یعنی کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے اس کا احساس ہے۔ فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والے شاید یہ کہیں کہ افسانہ میں نطشے کا فلسفہ (Eternal Return)بھی موجود ہے لیکن یہ بات اہم نہیں ہے کہ علاّم کاقصہ پڑھتے وقت ہمارا ذہن کن مجرد تصورات کی طرف مائل ہوتاہے۔ ہمیں اپنی توجہ راوی کے ذہنی عمل پر رکھنی چاہیے۔ کئی دن سے راوی کو علاّم کی موجودگی کا احساس ہورہا تھا جو شروع میں فریبِ نظر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ایک دن جب بازار میں واقعتاً راوی کاسامنا لڑکھڑاتے ہوئے علاّم سے ہوگیا اور کچھ لوگوں کی مدد سے علام کو اُٹھوا کر راوی اپنے گھر لے گیا تو راوی علاّم کو علّام کابیٹا سمجھا۔ اس مغالطہ کا counter point (مغربی موسیقی کی اصطلاح) افسانہ کے آخری جملہ میں سامنے آتا ہے کہ علّام بھی راوی کو ڈپٹی صاحب سمجھا جو اُس کے پُرانے کرم فرما تھے جب کہ راوی ڈپٹی صاحب کابیٹا تھا (یہ وضاحت افسانہ میں پہلے ہی کردی گئی ہے کہ وہ صاحب ڈپٹی نہیں، پروفیسر تھے) یہاں جس حیرت انگیز تجربہ سے راوی گزرا، اُس کی تشریح ہم پوری طرح نہیں کرسکتے اور یہی ادبی بیان کا وصف ہے کہ اُس کی تفہیم کے امکانات ختم نہیں ہوتے۔ کہنے کو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ راوی کا سامنا وقت کی اضافیت (نظریۂ آئن سٹائن)سے تھا، لیکن راوی جس ذہنی تجربہ سے دوچار ہوا، اُس کا کچھ سراغ ملتا ہے تو کافکاؔ کی تحریروں میں۔ نیّرمسعود کو کافکاؔ سے دلچسپی تھی۔ انھوں نے کافکاؔ کے افسانوں کا اردو ترجمہ بھی کیاہے۔ کافکاؔ بظاہر مانوس اور قابلِ فہم واقعات اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جو زندگی گُزار رہے ہیں اُس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ ادراک کی یہی نارسی ’علاّم اور بیٹا‘ کا موضوع بھی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو افسانہ کی قدرے طویل تمہید کی طرف دوبارہ دھیان جائے گا۔ حافظے میں جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں وہ آدمی کوحیران اور پریشان کرتی ہیں اور کسی طرح قابلِ فہم نہیں ہوتیں۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ آدمی کے سب تیقّنات اور مَفروضات اگر زائل نہ بھی ہوں تو فہم سے بالاتر ضرور ہوجاتے ہیں۔ آپ بالکل نہیں جانتے کہ زندگی آپ کو کس قدم پر کس صدمہ سے دوچار کرے گی۔ جو کچھ آپ پر گزرے گی، آپ محض اُس کے تماشائی ہوں گے۔ انسانی تجربہ کی یہ تفہیم آدمی کو بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق مجبورِ محض ظاہر کرتی ہے اور اُن تمام نظریات کے برعکس ہے جن میں آدمی کی خود مختاری اور اس کی قوتِ ارادی کو فیصلہ کُن ماناجاتاہے۔

نیّر مسعود افسانہ کی جزئیات، حقیقت نگاری کی روایت میں ترتیب دیتے ہیں۔ افسانہ کی زبان میں لکھنؤ کی اردوصاف سنائی دیتی ہے، لیکن اس کا اصل سروکار تاریخ، تہذیب، معاشرت اور ہمہ وقت رونما ہونے والے تغیرات سے نہیں ہے ، افسانہ کاموضوع زندگی سے موت کی طرف کا وہ سفر ہے جس کے کسی بھی موڑ پر کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے جس کی نہ پہلے سے توقع تھی اور نہ جس کا بعد میں کوئی جواز ۔ ہر عالم پر حیرانی کا عالم غالب ہے۔

 

....

گلِ افراہیم، نزد سی پی او لین، 4-A بائی پاس روڈ،

 دھورا، علی گڑ ھ-202002

موبائل: 9358257696

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...