Thursday, August 3, 2023

نئے شعری رجحانات

نئے شعری رجحانات

خلیل الرحمٰن اعظمی


زندگی ہی کی طرح شعروادب بھی اٹل ہونے کے بجائے متحرک اور تغیرپذیرہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا فطری عمل اورناگزیر حقیقت ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل وشواہد اکٹھا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شعروادب کے موضوعات ومسائل، طرز فکر وطرزاحساس، اسالیب واظہار کے سانچے اگر نت نئی صورتیں اختیار کریں توتاریخ ادب کی اصطلاح بے معنی ہوجائے گی۔ جس زبان کا ادب ٹھہرائواور انجماد کا شکارہوکر تغیروتبدل کے دروازے اپنے اوپر بندکرلیتا ہے اس زبان کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔

نئے ادب اورپرانے ادب یا نئی شاعری کے مسئلے کواس طرح دیکھنا مناسب نہ ہوگا جس طرح ہم رات اوردن کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔ ادب کی تاریخ میں تبدیلیوں کا عمل اس طرح نہیں ہوتا کہ کوئی ایک تاریخ اوردن مقرر کرکے تمام ادیب پرانے ادب کی روایات و اسالیب سے دست بردار ہوکر کوئی نئی چیز ایجاد کرلیں اورپھر سب کے سب متفقہ طورپر اسی سے وابستہ ہوجائیں۔ ادب اورنئی شاعری یا نئے رجحانات بھی پرانے ادب اور پرانی شاعری یا پرانے رجحانات کے بطن سے جنم لیتے ہیں اور بعض نئے عناصرکی شمولیت کے باوجودکچھ پرانے عناصر بھی اپنے اندررکھتے ہیں۔ نئے اورپرانے شاعر میں بنیادی فرق میرے نزدیک یہ ہے کہ پرانے شاعر کا ذہن اس نئے عناصر کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا جنہیں زندگی اور زمانے کی تبدیلیوں نے جنم دیا ہے۔ دوسری طرف وہ ان عناصر کو اپنے وجود سے خارج کرنا بھی پسند نہیں کرتا جوپرانی شاعری کے لیے توایک مؤثرقوت کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب ان کی مدت حیات ختم ہوچکی ہے اوران میں کسی قسم کی توانائی اور قوت باقی نہیں رہی ہے۔ گویا پرانا شاعر وہ ہے جو ماضی کو بحسنہ زندہ رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ برخلاف اس کے نیا شاعر وہ ہے جوماضی کے صرف ان عناصرکو برقرار رکھنا چاہتا ہے جن میں زندگی اور توانائی ہے اور بقیہ عناصر کو رد کردینا چاہتا ہے جو اس کے نزدیک مردہ روایات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نئی شاعری حقیقی معنوں میں وہ ہے جو ماضی کے صالح عناصراور زندہ روایات کو بھی اپنے اندررکھتی ہے اورکچھ تازہ عناصراور تازہ روایات کی شمولیت کے سبب اس کا رنگ وآہنگ، اس کے اسالیب اور اس کا ذائقہ خاصا نیا اور بدلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پرانے اسالیب اور پرانے ذائقے کے رسیا اسی لیے نئی شاعری سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ وہ نئی شاعری کے صرف اس عنصر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو پرانی اورنئی شاعری میں قدرمشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی نئی شاعری میں جتنا حصہ ماضی کا شامل ہے وہ تو ان کی دسترس میں آتا ہے لیکن وہ حصہ ان کی گرفت سے باہر نکل جاتا ہے جو زمانۂ حال کے تقاضوں کی پیداوار ہے۔ اس حصے کے بارے میں وہ طرح طرح کے شکوک وشبہات کا اظہارکرتے ہیں۔ کبھی اسے بدعت اور بے راہروی سے تعبیرکرتے ہیں کبھی اسے نئے شاعروں کی سہل پسندی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اورکبھی اس کے خلاف بڑے خلوص سے اس لیے مہم چلاتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ بدعتیں شاعری کو تباہ کردیںگی لیکن زمانہ ایسا بے درد ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ نئے لوگوں کو ہی تقویت پہنچاتا ہے اورنئی شاعری آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناکر رہتی ہے۔ زمانہ حال اور ماضی قریب کے ان شعرا کے علاوہ ہر زمانے میں کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو پرانا شاعر کہتے ہیں۔ ماضی قریب کے شعرا کے مقابلے میں بھی پرانے ہوتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ یہ صرف پرانے عناصر کے وارث ہوتے ہیں جواب بالکل مردہ ہوچکے ہیں۔ ہمارے یہاں کے وہ استاد یا استاد نماشاعر اس زمرے میں آتے ہیں جواب تک داغؔ وامبرؔ یا ذوقؔ و شاہؔ نصیر کی فنی روایات واسالیب اور ان کے موضوعات و مسائل کے وفادار ہیں اوران سے سرمو انحراف کوکفر کے برابر سمجھتے ہیں۔ ایسے شاعروںکو روایتی شاعر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ اپنی شاعری کا مواد زندگی سے نہیں بلکہ بزرگوں کے دواوین سے لیتے ہیں۔ ردیف وقافیہ اورالفاظ کے تلازموں سے ہزارمرتبہ کے باندھے ہوئے مضامین کو پھر باندھتے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں مشاعروں نے اس روایتی اور کتابی شاعری کے فروغ میں خاصا حصہ لیا ہے اور اب تک مشاعروں میں اسی قسم کے شاعروں کی اکثریت ہوتی ہے۔

ہماری کلاسیکل شاعری جس کا آغازامیرخسرو اورچندر بھان برہمن کی غزلوںاور متفرق شعروں اورمحمدافضل کے ’بارہ ماہ سے‘ سے ہوتا ہے اورجودکنی سے لے کر غالبؔ تک مختلف منزلیں طے کرتی ہے، ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ یہ شاعری مواد اور اسلوب دونوں اعتبار سے تراش خراش اور تبدیلیوں کے عمل سے گزری تھی اور اس کی بدولت اردوزبان کوجوتوانائی نصیب ہوئی اس سے ادب کا کوئی طالب علم انکار نہیں کرسکتا لیکن ہندوستان میں مغربی علوم، مغربی تہذیب اور مغربی نظام حکومت وسیاست نے ہمارے طرزفکر وطرزاحساس کوتبدیلی و تغیر سے دوچار کیا جس کے نتیجے میں ہماری شاعری میں ایک نیا دور طلوع ہوا۔ حالیؔ اور آزادؔ نے جب نئی نظم کا ڈول ڈالا تواسے بھی اس ذہن نے قبول کرنے سے انکار کیا جوماضی کا مکمل تابعدار اور وفادار تھا۔ چنانچہ نئی نظم کے ساتھ ساتھ پرانی شاعری بھی چلتی رہی۔ بیسویں صدی میں اقبالؔ نے اسے ایک اورنیا موڑ دیا لیکن اقبالؔ کے ہمعصروں میں بیخودؔ ، سائلؔ، نوحؔ ناروی اور احسنؔ مارہروی وغیرہ بھی پرانے طرز کی شاعری بدستور کرتے رہے۔ بیسویںصدی کے پیچ درپیچ مسائل نے اور بھی بہت سے رجحانات کو فروغ دیا اور ہمارے یہاں شاعری کے رنگارنگ اسالیب جنم لیتے رہے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی سطح پر تبدیلی کا عمل اور اس کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ اس لیے ہر پندرہ برس کے بعدہماری شاعری نئی کروٹیں لیتی ہے اورنئی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بیسویںصدی کے ان نئے شعری رجحانات کا مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ موضوعات ومسائل اور طرزفکر وطرز احساس کی تبدیلیوں کے ساتھ اسالیب اورہیئتوں میں بھی شکست وریخت کا عمل جاری رہا ہے۔ پرانی اصناف اورپرانی ہیئتوں نے بھی نئے اثرات قبول کرکے اپنے اندر تازگی اور ندرت پیدا کی ہے۔ بیسویں صدی کی غزل بھی پرانی غزل سے خاصی مختلف ہوگئی ہے اورمختلف ہوتی جارہی ہے۔ پابند نظم نے خود اپنے سانچوںکوتبدیل کیا ہے اور لہجے اوراسلوب کی تبدیلیوں کے سبب پرانے طرز کی پابند نظم سے مختلف ہوتی جارہی ہے۔ مغربی شاعری کے اثر سے آزاد نظم، علامت نگاری، پیکرتراشی، صفات منتقلہ کا استعمال ، الفاظ وتراکیب کے نئے سیاق وسباق بھی دریافت کئے گئے ہیں۔ ۱۹۳۵ء کے بعد ترقی پسند تحریک اورحلقۂ ارباب ذوق کی قیادت میں اردوشاعری نے بہت سی منزلیں طے کی ہیں اور اس دورکے شعرا نے اپنے زمانے کے مسائل، اپنے زمانے کے انسانوں کے ذہنی اضطراب، خوابوں، تمنائوں اور ان کی جستجو اورجدوجہد کوجس نہج سے اپنے کلام میں پیش کیا ہے اس کی بدولت ہماری وہ شاعری پرانی معلوم ہونے لگی جو ۳۵ء سے پہلے نئی شاعری یا نئی نظم کہی جاتی تھی۔ میری مراداس شاعری سے ہے جسے اصلاحی، قومی ، رومانی وغیرہ کے ناموں سے کسی زمانے میں یادکیا جاتا تھا اور جس کے سائے میں حب وطن، مناظر فطرت اور شبابیات کی شاعری پھولی پھلی اور جوان ہوئی تھی۔ جن شعرا نے نئے اثرات کوتھوڑا بہت قبول کیا وہ ان تحریکوں کے ہمسفر ہوگئے جیسے جوشؔ وغیرہ لیکن بہت سے شاعر اس زمانے میں پرانے معلوم ہونے لگے مثلاً اخترؔ شیرانی، حفیظ ؔجالندھری ، ساغرؔنظامی، احسانؔ دانش، روشؔ صدیقی وغیرہ کیونکہ شاعری کا کارواں اب آگے بڑھ گیا تھا اور یہ حضرات نئے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہے۔

پچھلے دس برسوں سے پھرہماری شاعری کچھ نئی کروٹیں لینے پر مجبورہوگئی۔ طرزفکر، طرزاحساس اورطرز بیان کے سانچے پھرٹوٹ پھوٹ کر نت نئی شکلیں اختیار کرنے پرآمادہ ہیں اور شعرا کی ایک نئی نسل ہمارے سامنے آگئی ہے جو ۳۵ء والی نئی شاعری سے غیرمطمئن ہے۔ یہ نئی شاعری اپنے پاس کیا نصب العین رکھتی ہے اورکس سمت میں سفرکرنا چاہتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فطری طورپر ہمارے ذہن میں آتا ہے لیکن ا س سوال کی تہہ میں خودہمارا وہ مزاج اورشعور کام کر رہا ہے جو اب تک ۳۵ء والی نئی شاعری سے بہت زیادہ وابستہ رہا ہے یا اس سے پہلے کی نئی شاعری کے بارے میں اپنے کچھ معتقدات و تصورات سے کام لے کر رائے قائم کرتا رہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ بیسویں صدی میں اب تک نئی شاعری کے جتنے رجحانات پروان چڑھے ہیں ان کی ایک مخصوص سمت رہی ہے، اس لیے اس شاعری پر ہم آسانی سے ایک لیبل لگالیتے ہیںاوراسی نسبت سے شاعروں کوایک خانے میں رکھ کر دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ قومی شاعر، سیاسی شاعر، رومانی شاعر، شبابیات کا شاعر، مناظرفطرت کا شاعر، شاعر انقلاب، شاعر مزدور، اشتراکی شاعر، یاسیت پسند شاعر، خارجی موضوعات کا شاعر، داخلی موضوعات کا شاعر، غم جاناں کا شاعر، غم دوراںکا شاعر، ملکی شاعر، بین الاقوامی شاعر، آزاد نظم کاشاعر، ہیئت میں تجربے کرنے والا شاعر، پابند نظم کا شاعر، ترقی پسند شاعر، رجعت پسند شاعر،صحت مند شاعری، مریضانہ شاعری وغیرہ وغیرہ۔ یہ خانے شاعروں نے خود بنائے تھے۔ یا اس زمانے کے سیاسی وسماجی عوامل نے بنائے تھے یا اس لیے بن گئے تھے کہ اس زمانے کی شاعری نقد و انتقاد کی انگلی پکڑ کر چلی تھی؟ تقریباً سبھی باتیں اس سلسلے میں کہی جاسکتی ہیں اوران میں ایک حد تک صداقت ہے، یہ تحریکوں کا زمانہ تھا اور تحریکیں وجودمیں آتی ہیں توشعوری طورپر بعض نظریات وتصورات کی تبلیغ وتلقین کی جاتی ہے اوران نظریات وتصورات کوبعض اوقات شاعر اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے۔ نظریات و تصورات سے مکمل طورپر وابستہ ہوجانے میں شاعر کو کچھ فائدے بھی ہیںاورکچھ نقصانات بھی۔ فائدہ یہ کہ اسے بنی بنائی ایک لکیر یا سمت مل جاتی ہے جس پر وہ آنکھ بندکرکے چل دیتا ہے اورانہی نظریات و تصورات کی روشنی میں وہ اپنے آپ کو غیرمتعلقہ مسائل یا غلط راستوں سے محفوظ رکھتا ہے اوراس پر گمرہی کا کم سے کم الزام عائد ہوتا ہے لیکن نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات واحساسات، اپنی واردات وکیفیات پر اعتماد کرکے آزاد تخلیقی عمل سے گزرنے اور حقائق تک خودپہنچنے کے بجائے وہ ان نظریات وتصورات کا ضرورت سے زیادہ وفادار بلکہ غلام ہوجاتا ہے اور اسی وفاداری کی وجہ سے بعض اوقات اپنے حقیقی محسوسات اوراپنی افتاد طبع کودبانے اورکچلنے کے لیے مجبورہوجاتا ہے۔ شاعر کی افتاد طبع، اس کے جذبات واحساسات، اس کے تجربات اور واردات اس کے نظریات وتصورات سے مکمل طورپر ہم آہنگ ہوجائیں تو کیا کہنا لیکن یہ منصب ذرا کم ہی لوگوںکونصیب ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مصنوعی اورغیرحقیقی فضا میں سانس لیتا ہے اوراپنی شاعری کی بنیادایسے مفروضہ موضوعات ومسائل پر رکھتا ہے جواس کا حقیقی اور اصلی تجربہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کی شاعری تخلیقی آب ورنگ سے محروم ہوجاتی ہے اورایک ڈھانچے کی طرح ہوتی ہے جس میں زندہ رہنے والی روح موجودنہیں ہوتی۔ ترقی پسند تحریک اورحلقۂ ارباب ذوق کے شاعر دوالگ الگ سمتوںکے شاعر تھے لیکن ان شعرا نے اپنے کومخصوص تصورات کا ضرورت سے زیادہ پابند کرلیا تھا۔ اسی لیے ایک طرف ایسے شاعر زیادہ پیدا ہوئے جن کے پاس صرف موضوع ہی موضوع تھا تودوسری طرف ایسے لوگ جن کے پاس محض ہیئت کے تجربے، ایک طرف محض خارج کی دنیا تھی تو دوسرے نے داخلی دنیا میں ہی اپنے آپ کو شعوری طورپر مقیدکرلیا۔ یہ بات عام شاعروںکے بارے میں کہی جارہی ہے ورنہ دونوںسمتوں میں ایسے شاعر بھی موجود تھے جنہوںنے ان تحریکوں یا حلقوں سے وابستہ ہونے کے باوجود، اپنی شخصیت، اپنی افتاد طبع اور اپنے تخلیقی عمل کے فطری مراحل کا لحاظ رکھا اوراسی سبب سے انہوںنے ایسی تخلیقات پیش کیں جن میں ادبی اور جمالیاتی قدریں پورے طورپر موجود ہیں۔

نئی شاعری دراصل اسی فنی رویے کے ردعمل کے طورپر پیدا ہوئی ہے۔ کچھ تواس کا سبب یہ بھی ہے کہ سیاسی وسماجی حالات نے پرانے عقائد و تصورات کی نارسائیوں کا پردہ چاک کردیا ہے اور نئی نسل کا ایمان ان سے اٹھ گیا ہے۔ دوسرا سبب ۳۵ء کے نئے شاعروں کے ایک خاصے بڑے گروہ کی ہنگامی اور تجرباتی شاعری کی بے اثری کا احساس ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا نئی شاعری انہی خانوںاورحدبندیوںکے ٹوٹنے سے پیدا ہوئی ہے اسی لیے نئی شاعری پر تنقید و تبصرے کا کام بھی اب ذرا مشکل ہوگیا ہے۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے اپنے اپنے نقاد تھے جواپنے نظریات اورادبی عقائد کی روشنی میں اپنے شاعروں کی تشریح و توضیح کرتے تھے اورانھیں سراہتے تھے۔ اپنے گروہ کے شاعر کواچھا اوردوسرے گروہ کے شاعرکوبرا کہنے کے لیے انھیں بہت زیادہ غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے سامنے ایک واضح لکیر تھی جس کے ایک طرف سب اچھے تھے اوردوسری طرف سب برے۔ ترقی پسند نقاد اپنے شاعروں کوسماج کا ہمدرد، باشعور، ایک روشن مستقبل کا پیغامبر، صحت مند خیالات کا علمبردار، وقت اور زمانے کا نباض، بین الاقوامی شعورکا مالک اور انسانیت کا بہی خواہ اور دوسرے شاعروںکوسماج دشمن، داخلیت پرست، مریض، اپنی جبلتوں کا اسیر وغیرہ کہہ کر اپنے تنقیدی فرائض سے عہدہ برآ ہوجاتے تھے۔ اسی طرح حلقۂ ارباب ذوق والے ترقی پسند شاعروں کومبلغ، ڈھنڈورچی، ہنگامی اور صحافتی شاعر ، فن سے بیگانہ وغیرہ کہہ کر انھیں رد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ نیا شاعر اس تنقیدی رویے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ نہ اپنے آپ پرلیبل لگانا چاہتا ہے اورنہ دوسروں پر۔ پرانے شاعر ان دونوں گروہوں میں سے ان شعرا کو اپنے قریب محسوس کرتا ہے جنہوںنے ان گروہوں سے وابستہ رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کسی خانے میں بندنہیں کیا بلکہ اپنی تخلیقی شخصیت اپنی افتاد طبع اوراپنے تجربات و محسوسات کا لحاظ رکھا اوراسی بنا پر موثر اورقابل قدر تخلیقات پیش کیں۔ چنانچہ اخترالایمان، مختار صدیقی، مجیدامجد، منیب الرحمن، عابد عزیزمدنی اور اس نوع کے شاعروں سے نئی نسل کے شاعر ذہنی طورپر قربت محسوس کررہے ہیں اور فیض، راشد، میراجی، مخدوم، سردارجعفری وغیرہ نے اسلوب واظہار کے جوتجربے کئے تھے اس سے حسب توفیق فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

چونکہ نئی شاعری خانوںاور حدبندیوں کے ٹوٹنے سے پیدا ہوئی ہے اس لیے نئے شاعروں پر کوئی لیبل نہیں لگایا جاسکتا نہ کوئی ایسی بات کہی جاسکتی ہے جو سب پر صادق آتی ہو۔ کسی ایک خصوصیت یا صفت یا کسی شاعر کے فنی رویے یا کسی ایک شاعر کی کسی ایک نظم یا غزل کوسامنے رکھ کر اوراس سے کچھ نتائج نکال کر اگرانھیں پوری نئی شاعری یا نئی نسل پر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اب زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ اس کی ایک خصوصیت کواگرہم اس دور کی ساری نئی شاعری پر چسپاں کرنا چاہیںگے تو اس کا بہت سا حصہ اس کے دائرے سے نکل جائے گا۔ اسی طرح کسی ایک کیفیت کوہم نئی شاعری کی پہچان بتائیںگے تو ہمیں خود محسوس ہوگا کہ یہ کیفیت سب شاعروں کے یہاں نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایک ہی شاعر کی ایک نظم یا غزل میں موجودہوگی تودوسری نظم یا غزل کسی اورکیفیت کا پتہ دے گی۔ غرضیکہ اس دورکی نئی شاعری کی سب سے نمایاں صفت اس کی رنگارنگی ہے۔ ایک ہی شاعر کے یہاں بعض اوقات تنوع ملے گا۔ وہ کسی ایک نظم میں داخلی شاعرمعلوم ہوگا تودوسری نظم میں خارجی تجربے کو برتنے کی کوشش کر رہا ہوگا اورکسی تیسری نظم میں داخلیت اور خارجیت کے امتزاج یا ٹکرائو سے ایک تیسری کیفیت جنم لیتی ہوئی معلوم ہوگی۔ کسی شاعر کی ایک نظم ناکام اور بے کیف ہوگی تودوسری نظم میں اس کا تخلیقی عمل کامیاب ہوتا نظرآئے گا، اس لیے پرانے نقادوں کی دشواری ہماری سمجھ میں آسکتی ہے۔ وہ اب تک کسی ایک شاعر یا کسی شاعر کی ایک نظم پر عملی تنقید کرنے کے بجائے رجحانات پر مضامین لکھنے کے عادی رہے ہیں۔ رجحانات پر مضمون لکھنے میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ کسی نظم یا شعری تخلیق کے اندرجانے اوراس کا مکمل تجزیہ کرکے اس کے ادبی وجمالیاتی محاسن ومعائب کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے کسی موضوع کو خارجی طورپر سامنے رکھ کر اس پر لکھی گئی سب چیزوں کا سروے کرڈالا اوراعلیٰ، اوسط، ادنیٰ ہر طرح کی ادبی تخلیق کا ایک ہی سانس میں ذ کر کرتے گئے اور پھر آخر میں اس رجحان سے وابستہ سب شاعروں کو ان کی محنت کی داد دے دی۔ ہندوستان کی آزادی میں اردوشاعروں کا حصہ، اردوشاعری اورحب الوطنی ، اردوشاعری میں سماجی شعور، اردوشاعری اور قحط بنگال، اردوشاعری اور عالمی جنگ، اردوشاعری اور تقسیم ہند،اردوشاعری اور فسادات، اردوشاعری اور امن، اردو شاعری اور بین الاقوامی شعور، اردوشاعری اور رومانیت، اردوشاعری اور مناظرفطرت۔ غرض کہ اس طرح موضوع قائم کرکے نظموںاورشاعروں کی فہرست جمع کیجئے اوران نظموںکا خلاصہ نثر میں لکھنے کے بعدان کے کچھ اقتباسات دے دیجئے۔ چلیے ایک تنقیدی مضمون ہوگیا۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کے نقادوں کے لیے نئی شاعری اپنے ساتھ بڑی مصیبتیں لائی ہے۔ میں نے ادھر کچھ مضامین نئی شاعری پر پرانے نقادوںکے دیکھے، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نئے شاعروں کی نظمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ نئے شاعر اپنے اپنے ذاتی خول میں بند ہوگئے ہیں، ان کے یہاں اپنے زمانے کا کوئی شعور نہیں ہے۔ یہ داخلیت کی بھول بھلیاں میں قید ہیں، یہ صرف ٹیڑھی میڑھی نظمیں لکھ رہے ہیں اورہیئت پرستی کی طرف مائل ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر صحیح ہیںاوربعض نئے شاعروں کے یہاں یہ باتیں موجود ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی نئے شاعروں کے یہاں بہت کچھ ہے اوران شاعروں کے علاوہ بھی نئے شاعر ہیں چونکہ نقادوں کویہ اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہواس لیے وہ نام لینے یا مثالیں دینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ مثالیں دینے کے بعد اس بات کی پرکھ بھی کی جاسکتی ہے کہ آیا نقاد جوکچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے یا وہ خود کسی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کے برخلاف دوسری طرح کی مثالیں پیش کی جائیںگی توپھر اس تنقید کا بھرم کھل جائے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ نئی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فہرست سازی، سروے اور خالص نظریاتی تنقید کوبے معنی بناکر رکھ دیا ہے اور عملی اور تجزیاتی تنقید کی ضرورت کا شدید احساس دلایا ہے۔ یہ توقع رکھنا کہ شعروادب کی تاریخ میں کوئی ایسا زمانہ آئے گا جب صرف اچھے شاعر پیدا ہوںگے۔ یا کوئی شاعرصرف اعلیٰ درجہ کی چیزیں لکھے گا یا کسی شاعر کوہر نظم یا ہرغزل کے لکھنے میں یکساں کامیابی ہوگی نہ صرف ناجائز بلکہ فضول اور مہمل توقع ہے۔ نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی تخلیقات کوسمجھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرے۔ اپنے دور کے طرز احساس، طرز فکراورآہنگ اور اسلوب سے موانست پیدا کرنے کی کوشش کرے اورماضی وحال کے ر بط کو سمجھ کر فنی تخلیقات کی گہرائیوںمیں جاکر ان کی کامیابی یا ان کی ناکامی کا راز معلوم کرے۔ ہمارے پرانے تنقیدنگار اگراس مشکل کام کوکرنے کے لیے تیار نہیں اور پرانے طریقے سے ہی لیبل اورخانے بنابناکر کام چلانا چاہتے ہیں تونئی شاعری کا مسئلہ ان کے لیے ہمیشہ دردسر بنا رہے گا اور نئی شاعری انھیں اسی حالت میں چھوڑکر آگے بڑھتی رہے گی۔

گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اردو کے نئے شاعروں کے یہاں زندگی کوایک مکمل اکائی کی حیثیت سے دیکھنے، سمجھنے اور برتنے کا جورجحان سامنے آیا ہے وہی اس نسل کا سب سے بڑا اکتساب ہے۔ داخلیت ، خارجیت، مواداور ہیئت، ذات اور کائنات، غم جاناں اور غم دوراں بڑے موضوعات اورچھوٹے موضوعات ان سب کی تقسیم اور انھیں علیٰحدہ علیٰحدہ سمجھ کرکسی ایک کورداوردوسرے کو قبول کرنے یا اپنے اوپر مسلط کرنے کونیاشاعر ایک غیرفطری عمل سمجھتا ہے۔ وہ خارجی دنیااورداخلی دنیا کوالگ الگ کرکے دیکھنے کا قائل نہیں بلکہ ان دونوں کے گہرے ربط کو سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ فرداورسماج دونوں کو الگ الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کا لازمہ قرار دیتا ہے۔ وہ شاعری کواجتماعی خیالات کا منظوم بیان نہیں سمجھتابلکہ اسے زندگی کے تجربات ومشاہدات کا ایسا تخلیقی اظہار سمجھتا ہے جواس کی اپنی شخصیت، اس کے مزاج اور اس کے محسوسات سے ہم آہنگ ہوکر ایک منفردپیکر اختیارکرلے۔ وہ شاعری کوجماعتی کورس کے بجائے انفرادی تخلیقی عمل سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر شاعر اپنی جگہ پر ایک منفرد وجود ہے اوراس کی ہر نظم خود اپنی جگہ ایک منفرد اکائی ہے۔ انفرادی اسلوب اورطرز کی اہمیت اس زمانے میں زیادہ بڑھ گئی ہے جبکہ گزشتہ ادوار میں عمومی اسلوب اوریکساں انداز بیان کوبرتنے کا رجحان عام تھا۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نئے شاعروںمیں ہر شاعر کوایک شاعر کی ہر نظم یا غزل کوکسی ایک پیمانے سے جانچنا غلط ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب اردو زبان بعض پیچیدہ اورصبرآزما مراحل سے گزر رہی ہے اردو کا نیا شاعر اس زمانے میں شاعری کی نت نئی د نیائوں کی جستجو میں سرگرم ہے۔ وہ طرح طرح کے موضوعات ، طرح طرح کی کیفیات اورطرح طرح کے اسالیب کوبرتنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ کبھی ناکام ہوتا ہے اور کبھی کامیاب، وہ کبھی محدود ہوجاتا ہے اور کبھی لامحدود فضائوںمیں پرواز کرناچاہتا ہے۔ میرا خیال تویہ ہے کہ بحیثیت مجموعی آج کے دور میں زیادہ اچھی چیزیں لکھی جارہی ہیں اورپچھلے دنوں جن پرانے نقادوں نے جمود کا نعرہ لگایا تھا ان کی آنکھیں اس ہماہمی اور ہلچل کودیکھ کر چکاچوند ہوگئی ہیں۔

یہ شعرا مختلف طرح کے معتقدات، رجحانات، موضوعات اور ان کے برتنے کے مختلف اسالیب لے کر سامنے آئے ہیں۔ ان سب کو پسند کرنا ضروری نہیں۔ نہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ ہرحال میں اچھی شاعری کا نمونہ ہے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ شعرا مل کر موجودہ دور کے شعری مزاج کی تشکیل کر رہے ہیں۔ ان کے محاسن ومعائب کوبھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بیشک یہ شاعری ہمت افزائی کی بھی مستحق ہے لیکن اس پر کڑی تنقید بھی ضروری ہے۔ یہ تنقید مجرداورعمومی نہیں ہونی چاہیے بلکہ واشگاف، تجزیاتی اورنام بنام ہونی چاہیے۔ جب شعر وادب میں نئے رجحانات شروع ہوتے ہیں تواپنے ساتھ خوبیوں کے ساتھ بہت سی خرابیاں بھی لاتے ہیں۔ جس طرح موسم تبدیل ہونے پر بہت سی بیماریاں پھیلنے لگتی ہیں اسی طرح نئے پن اورجدت پسندی کے سیلاب میں بعض غیرفطری عناصر بھی سامنے آتے ہیں۔ جدیدیت اور جدت میں فرق کرنے کی ایسے زمانے میں بے حد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔صالح قسم کی جدیدیت وہ ہے جو وقت اورماحول کے فطری تقاضوں اور ادیب کے اپنے احساس اور تجربے سے پیدا ہوئی ہو، یہ جدیدیت خلا میں لٹکی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں اپنی روایت میں ہوتی ہیں۔ جوشاعری اپنے ماضی سے بالکل کٹ کر جدید ہوگی وہ صحیح معنوںمیں جدید بھی نہ ہوگی۔ اس میں انوکھاپن کا چونکانے کا انداز تو ہوگا جووقتی طورپر ہماری توجہ کواپنی طرف مبذول کرسکتا ہے لیکن اس کا آب ورنگ بہت جلد پھیکا پڑجائے گا اور کچھ ہی دنوں میں یہ نیاپن پرانے پن میں تبدیل ہوجائے گا۔ نئی اورپرانی شاعری میں اس قسم کا فرق نہیں ہوتا جونئے اورپرانے اخبار میں ہوتا ہے اورنہ ہی بقول شخصے ادب میں عجائب خانے اورمیوزیم ہوتے ہیں۔ اچھی اور معتبرشاعری اپنے زمانے کی پیداوار ہونے کے باوجودہرزمانے کے لیے اپنے اندرکشش رکھتی ہے اور اگلی نسلوں کے لیے بھی وہ زندہ اورجیتی جاگتی حقیقت ہوتی ہے ورنہ ڈانٹے، شیکسپیئر، کالی داس، حافظ، میر، غالب اورٹیگور کا کلام آج نہ پڑھا جاتا اور اس کی جگہ لوگوں کے دلوںکے بجائے تہہ خانوں اورمقبروںمیں ہوتی۔ کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’’ہراچھا ادب روح عصر کی پیداوار ہوتے ہوئے ماورائے عصر بھی ہوتا ہے۔‘‘

یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوںکہ ترقی پسند تحریک اورحلقۂ ارباب ذوق کے تجربوں اوران کی غلطیوں سے نئی نسل کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ترقی پسندوں اورحلقۂ ارباب ذوق والوں میں سے بعض نے ترقی پسندی یا جدت کے فارمولے بنالیے تھے۔ ترقی پسندوں نے ماضی کے ادب کوجاگیردارانہ سماج کی پیداوار سمجھ کر حقارت سے ٹھکرایا اور غزل کو قدامت پسندی کی علامت قرار دیا۔ اسی طرح حلقۂ ارباب ذوق کے بعض شاعروں نے محض آزاد نظم لکھنے، لاشعوراور تحت الشعور کی بھول بھلیاں بنانے یا بعض اسلوبی جدتوں کا ایک نسخہ بنا لینے کو ہی جدیدیت کی پہچان قرار دیا۔ فارمولے اورنسخے کی مدد سے جو شاعری وجودمیں آتی ہے وہ عام طورپر کم عیار ہوتی ہے اور اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ نئے شاعروں میںبھی اگر کچھ لوگ جدیدیت کے فارمولے بناتے ہیں توصرف آزاد نظم کوجدیدشاعری کی واحد پہچان سمجھتے ہیں یا غزل میں میز، کرسی اور کتے، بلی کے الفاظ کثرت سے استعمال کرکے نئی غزل لکھنے کا نسخہ بنا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اگر سارترؔ اور کامیوؔ کے اقوال سن سناکر جابجا انھیں اگل رہے ہیں یا بعض کھردرے الفاظ ناتراشیدہ تراکیب اور نثری پیرایۂ زبان میں کچھ غیرہضم شدہ خیالات کوالٹے سیدھے لکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ نئی شاعری کر رہے ہیں تو یہ ان کی بڑی بھول ہے۔ اس قسم کی جعلی جدیدیت اوراس طرح کی مصنوعی اورجھوٹی نئی شاعری کا پردہ اسی وقت چاک ہوسکتا ہے جب ہمارے تنقید لکھنے والے نہایت جرأت اوربیباکی کے ساتھ آج کی شعری پیداوار کا الگ الگ تجزیہ وتبصرہ کریںگے اورکھرے کھوٹے میں فرق کرکے بلیغ، تہہ دار اور دل پذیر فن پاروں کی خوبیوں کواجاگرکریںگے۔ نئی نسل کے نفاذ کا کام نئی شاعری کا اشتہار دینا یا بھائی بندوںمیں حصہ تقسیم کرنا نہیں بلکہ اصل اورنقل میں تمیز کی قوت کوبیدار کرنا ہے۔

.......

بہ شکریہ: ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۱ء

اشاعت اول: ۱۹۷۷ء


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...